يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
اے اولاد (١) آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کردیا جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی جو زیب و زینت کا ذریعہ ہیں، نیز تمہیں پرہیزگاری کی راہ دکھا دی کہ یہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے۔ یہ اللہ (کے فضل و رحمت) کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ نصیحت پذیر ہوں۔
ف 3 آسمان سے پانی اتارا جس سے روئی اگتی ہے اور تم اس سے کپڑ بنتے ہو ( قر طبی) یہاں انزل بمعنی خلق ہے یعنی پیدا کیا۔ ( مفر دات حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی دشمن نے جنت کے کپڑے تم سے اتروائے پھر ہم نے تم کو دنیا میں لباس کی تدبیر سکھا دی۔ ( مو ضح) ف 4 یعنی اس ظاہر لباس کے علاوہ جس سے تم صرف بد ن ڈھانکتے ہو یا زینت کا کام لیتے ہو ایک اور معنی لباس بھی ہے جو ہر لبا س بہتر ہے لہذا تمہیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور وہ ہے پر ہیز گاری یعنی خوف خدا، ایمان اور عمل صالح، کا لباس بعض نے کہا ہے کہ لباس صوفی لوگ پہنتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سے سلف صالح جن کی پر ہیز گاری ضرب المثل تھی عمدہ قسم کے لباس پہنا کرتے تھے بعض نے زرہ وغیرہ فوجی لباس مراد لیا ہے جو دشمن سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے ( قر طبی، روح) ہاں یہ ضرور ہے کہ جس لباس کی ممانعت آئی ہے وہ نہ پنا جائے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں اب وہی لباس پہنو جس میں پر ہیز گا ری ہو یعنی م دیہ ریشمی لباس نہ پہنے اور دامن دراز نہ رکھے اور جو منع ہوا ہے سونہ کرے اور عورت بہت پاریک نہ پہنے کہ لوگوں کو بد ن نظر آوے اور اپنی زینت نہ دکھا وے۔ ( از مو ضح) ف 5 اور اللہ تعالیٰ کی اس بہت بڑٰی نعمت کی قدر کریں یا نصیحت حاصل کریں اور قبائح سے اجتناب کریں۔