ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ
پھر سامنے سے، پیچھے سے، داہنے سے، بائیں سے (غرض کہ ہر طرف سے) ان پر آؤں اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔
ف 9 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ’’ آگے‘‘ سے مراد ہے کہ انہیں آخرت کے آنے یانہ آنے سے متعلق شک میں ڈال دوگا ۔’’پیچھے ‘‘سے مراد یہ ہے کہ انہیں دنیا پر فریفتہ کروں گا۔ ’’دائیں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ دین کا معاملہ ان پر مشتبہ کردو گا اور’’ بائیں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ گنا ہوں کو مرغوب بنا کر ان کے سامنے پیش کرونگا ( ابن کثیر ) ف 1 ابلیس نے یہ بات اپنے گمان کی بنا پر کہی جو واقعی سچ ہو کر رہی جیساکہ دوسری آیت میں ہے کہİ وَلَقَدۡ صَدَّقَ عَلَيۡهِمۡ إِبۡلِيسُ ظَنَّهُۥ فَٱتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقٗا مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ Ĭ اور ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھا یا چانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی سوائے تھوڑے سے ایماندواروں کے۔ ( صبا 30)