سورة البقرة - آیت 88

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (یہ لوگ اپنے جماؤ اور بے حسی کی حالت پر فخر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں (یعنی اب کسی نئی بات کا اثر ان تک پہنچ ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ اعتقاد کی پختگی اور حق کا اثبات نہیں ہے) بلکہ انکار حق کے تعصب کی پھٹکار ہے (کہ کلام حق سننے اور اثر پذیر ہونے کی استعداد ہی کھو دی) اور اسی لیے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ دعوت حق سنیں اور قبول کریں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3 :یہود کہا کرتے ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی تمہاری کوئی بات ہم پر اثر نہیں کرتی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہےİ قُلُوبُنَا فِىٓ أَكِنَّةٍۢ مِّمَّا تَدْعُونَآ إِلَيْهِ Ĭ (یعنی جو دعوت دیتے ہو اس سے ہمارے دل پر دہ میں ہیں) اما احمد بن حنبل نے مر فو عا ذکر کیا ہے اور حضرت حذیفہ سے موقوفا مروی ہے کہ دل چار قسم کے ہیں ان میں سے ایک دل اغلف ہے یعنی کافر کا دل جس پر مہر لگادی گئی ہے اور جو حق سے متاثر نہیں ہوتا بعض علمائے تفسیر نے غلف کے یہ معنی کیے ہیں کہ ہمارے دل علم و حکمت سے پر ہیں کسی دوسرے علم کی ان میں گنجائش نہیں ہے۔ اس پر قرآن نے فرمایا ہے کہ حق سے متاثر نہ ہونا فخر کی بات نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کی لعنت کی علامت ہے (ابن کثیر۔فتح القدیر) ف 4 : یعنی ان کے دلوں پر کفر غالب ہے اور ایمان ہے بھی تو بہت کمزور اور نہایت قلیل پس قَلِيلًا مصدر محدوف کی صفت ہے لایومنون الا ایمانا قلیلا۔ (قرطبی)