سورة الانعام - آیت 153

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر ! ان سے) یہ بھی کہو کہ : یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔ لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف3 یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ ایک ہی ہے اور وہی سیدھی اور جنت تک پہنچانے والی ہے مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اردگر دبہت سی راہیں بناڈالی ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ (رض) سے رایت ہے کہ نبی (ﷺ) نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ ہے پھر آپ (ﷺ) نے ان کے دائیں اور بائیں کئی لکیریں بنائیں اور فرمایا ان میں سے ہرراہ پر شیطان بیٹھا ہے جو لوگو کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے اس کے بعد آپ (ﷺ) نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( ابن کثیر ) اس آیت میں جس طرح ادیان باطلہ سے منع فرمایا گیا ہے اس طرح اسلام میں بھی تفرقہ پسندی سے روک دیا گیا ہے پس جو راہ کتاب وسنت کے سوا ہو جس پر تین قرن مشھود لھا بالخیرگزرے ہیں وہ سب راستے ممنوع ٹھہرے ۔خواہ تقلید مذاہب اربعہ ہو یہ اہل بدعت کے مشارب ہوں۔ پرانی اور ہر قسم کی بد عات گمرہ کن ہیں۔ مسلمان کو حکم ہے کہ اللہ کابندہ اور رسول (ﷺ) کی امت بن کر رہے۔ خود ائمہ دین اور سارے مجتہدین سلف وخلف نے یہی وصیت کی ہے کہ کوئی ان کی تقلید نہ کرے بلکہ سب کے سب کتاب وسنت کی اتباع کریں۔ یہی طریقہ اہل حدیث جماعت نے اختیار کیا ہے اور اسی کی طرف دعوت دی ہے۔ ( ما خوذ از تر جمان النواب) ف 4 یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی وصیت ہے اور تقوی کی راہ ہے، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کون ہے جوان آیتوں پر میری بیعت کرتا ہے پھر آپ (ﷺ) نے ‌قُلۡ ‌تَعَالَوۡاْ سے لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَتک ان تین آیتوں کی تلاوت کر کے فرمایا جس نے ان کو پورا کیا اللہ تعالیٰ کے ذمہ اس کاجر ہے اور جس نے ان میں سے کسی چیز میں کمی کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا ہی میں پکڑ لیا تو وہی اس کی سزا ہے اور جسے اس نے مہلت دی اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے چاہے اسے سزادے اور چاہے اسے معاف فرما دے ( ابن کثیر بحوالہ ترمذی وغیرہ )