وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا، اور گائے اور بکری کے اجزاء میں سے ان کی چربیاں ہم نے حرام کی تھیں، البتہ جو چربی ان کی پشت پر یا آنتوں پر لگی ہو، یا جو کسی ہڈی سے ملی ہوئی ہو وہ مستثنی تھی۔ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی تھی۔ اور پورا یقین رکھو کہ ہم سچے ہیں۔
ف 5 امت محمد یہ پر جو چیزیں حرام ہیں ان کا ذکر کرنے کے بعد اب یہود پر حرام کی ہوئی چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے مقصد ان کی تردید ہے (قرطبی) كُلَّ ذِي ظُفُر سے مراد ہر وہ جانور اور پرند ہے جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ، شتر مرغ بطخ وغیرہ، (روح المعانی) اور بعض نے اس سے سم درا چوپائے جیسے گھو ڑا گدھا وغیرہ۔ اور شکاری پر ندے سے مراد لیے ہیں جو پنجہ سے شکار کرتے ہیں۔(قرطبی) ف 6 أَوِبمعنی الواؤ۔ یعنی ان چار چیزوں کے علاوہ یہود پر یہ چیزیں بھی حرام کردی گئی تھیں ف 7 یعنی یہ چیزیں جس طرح اب شریعت محمدی میں حرام نہیں ہیں اس سے پہلے بھی حرام نہ تھیں البتہ یہود یوں کو ان کی سر کشی کی سزا دینے کے لیے ہم نے انہیں وقتی طور پر حرام کردیا تھ۔ (دیکھئے سورۃ نسا آیت 23) مقصد یہود یوں کے اس دعوی ٰ کی تر دید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی چیز حرام نہیں کی ماسوا ان چیزوں کے جو اسرائیل (یعقوب ( علیہ السلام) نے از خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں، (قر طبی۔ ابن کثیر) اور وَإِنَّا لَصَٰدِقُونَ ( اور ہم سچ کہتے ہیں۔) کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ دعوی غلط ہے اور صحیح بات وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ ( نیز دیکھئے سورۃ آل عمران آیت 93)