قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : جو وحی مجھ پر نازل کی گئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا کسی کھانے والے کے لیے حرام ہو (٧٦) الا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہتا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا جو ایسا گناہ کا جانور ہو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ ہاں جو شخص (ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر) انتہائی مجبور ہوجائے (٧٧) جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو، اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
ف 3 أَوۡ فِسۡقًا‘‘عطف علی’’ لَحۡمَ خِنزِيرٖ‘‘ وما بینھما اعتراض و أُهِلَّ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ بِهِۦۚ صفۃ مو ضحۃ ‘‘اصل میں اھلال کے معنی’’ اواز بلند کرنا‘‘ کے ہیں یہاں مراد غیر اللہ کے نام پر کوئی جانور ذبح کرنا ہے جیسے بکرا شیخ سدّو کا ،گا ؤ سید احمد کبیر کی، مر غازین خاں کا، تو شہ شاہ عبد الحق کا ،صحنک بی بی فاطمہ کی، نذرنیاز پیر فقیر کی یہ سب حرام ہیں ( سلفیہ) ف 4 یعنی مضطر کے لیے بھی ان کا کھانا گناہ تو ہے مگر اللہ تعالیٰ معاف فرمادیگا اس آیت میں اشکال ہے کہ محرمات ان چار چیزوں میں منحصر نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہیں اس بنا پر علما نےآیت کی تاویل کی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یعنی جن جانوروں کا کھانا دستور ہے ان میں یہی حرام ہیں۔ ( موضح) یا یہ کہا جائے کہ یہ آیت مکی ہے اور مکہ میں ان اشیا کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہ تھی پھر اس کے بعد یہ مدینہ میں سورۃ المائدہ اور سورۃ بقرہ (آیت 173) نازل ہوئیں تو ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزیں بھی حرام قرار دے دی گئیں ( دیکھئے مائدہ آیت 3) علاوہ ازیں مدینہ میں نبی (ﷺ) نے بھی بعض اشیا کو حرام قرار دیا، حد یث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے ہر درندے، شکاری پرندے گھریلو گدھے اور کتے کو حرام قرار دیا ہے، (بخاری ومسلم) علما حدیث وفقہ کی اکثریت نے اس آیت کی یہی تاویل کی ہے جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے آیتİ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡĬ کے نزول کے بعد بھی بعض رشتے حرام قرار دیئے ہیں مثلا فرمایا: ایک عورت سے نکاح هونے كے بعد اس كی موجودگی میں اس عورت كی خاله یا پھوپی سے نکاح حرام ہے۔ مقصد یہ کہ آیت کے عموم میں حدیث سے تخصیص ہوگی لہذا بعض سلف کا آیت مذکور سے ان چار کے علاوہ باقی اشیا کو حلال سمجھنا صحیح نہیں ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے حا فظ ابن عبد البر نے سورۃ الانعام کے مکی ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ اس آیت میں دراصل بحیرہ سائبہ وغیرہ کی حالت کو واضح کرنا ہے جو جاہلیت میں لوگوں نے اپنی رائے سے حرام قرار دے رکھے تھے ورنہ محرمات کا حصر مقصود نہیں فالا ستثناء منقطع (قرطبی، ابن کثیر )