سورة الانعام - آیت 141

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں، اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں، اور نخلستان اور کھیتیاں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ (٧٢) جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو، (٧٣) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 یعنی ان میں سے کچھ حصہ فقیروں) مسکینوں بیوأؤں اور یتیموں کو بطور صدقہ دو، یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی، اس وقت رزعی پیدا رکے صدقہ کایہ حکم عام تھا اور اس کی کوئی مقدار مقرر نہ تھی، مدینہ پہنچ کر 2 ھ میں زکوٰۃ (عشر) کی مقدار اور شرح مقرر ہوئی یعنی بارانی زمین کی پیدا وار میں دسواں حصہ اور جس زمین کو کنویں ی امحنت سے پانی لاکر سیراب کیا جائے تو اس کی پیداوار میں سے پیسواں حصہ۔ تفصیللات حدیث وفقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسئلہ، عشر صرف اقوات یعنی اس پیدار پر ہے جو بطور ذخیرہ جمع کر کے مصنوعی تدبیر کے بغیر رکھی جاسکتی ہو اس بنا پر ہے کیونکہ عشر کی فرضیت کے بعد عہد رسالت اور حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں بھی ان سے عشر نہیں لیا گیا پھر اگر ان سے عشر ضروری ہوتا توعہد صدیقی میں اس کی طرف ضرور توجہ دی جاتی جب کہ ایک عقال کے اوانہ کرنے پر حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے اعلان جہاد فرمایا دیا تھا علامہ قرطبی، نے اس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ( دیکھئے قرطبی، زیر آیت) ف 5 اسراف کے معنی کسی چیز میں حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، عام کھانے پینے اور مال کے خرچ کرنے میں اسراف ہوتا ہے اور صدقہ خیرات میں بھی یعنی نہ تو ناحق کوئی چیز وصول کرو اور نہ ناحق چرچ ہی کرو بعض نے لکھا ہے کہ یہ خطاب ولاۃ) حکام) سے ہے یعنی حق واجب سے زیادہ وصول نہ کرو جیسا کہ حدیث میں ہے۔ المعتدی فی الصدقہ کما نعھال کہ صدقہ وصول کرنے میں ظلم کرنے والا اسی طرح گنہگار ہے جیسا کہ زکواۃ نہ دینے والا۔ ایک روایت میں ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس نے ایک دن میں پانچ سو کھجور کے درخت سے پھل اتارا اور اسی روز سارے کا سارا خرچ کردیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سارا مال صدقہ وخیرات میں دے دینا منع ہے۔ (قرطبی)