وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٥١) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔
ف 3 ای جعلنا الک عدوا کما جعلنا من الا نبیا) لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ جس طرح پہلے انبیا شریر دشمنوں کے مقابلہ میں صبر و استقامت سے کام لیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی ایذار سانی پر صبر کیجئے اور مایوسی اور گھبراہٹ کو اپنے اندر راہ نہ پانے دیجئے ف 4 یعنی اپنو سے سیدھی سادے لوگوں کو فریب دینے کے لیے چوری چھپے ایک دوسرے کو طرح طرح کو حیلے بازیاں اور مکار یاں سکھاتے ہیں ف 5 وہ چونکہ اتمام حجت کے لیے انہیں امتحان کا پورا پورا موقع دینا چاہتا ہے اور کسی کو اپنی نافرمانی سے زبر دستی باز رکھنا اس کی حکمت اروتکوینی نظام کے خلاف ہے اس لیے وہ انہیں ڈھیل دے رہا ہے، یعنی ان کی کوئی پروانہ کریں اور نہ ان کی بداعمالیوں پر رنجیدہ خاطر ہوں بلکہ ان کا معا ملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں وہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ ( نیز سورۃ مدثر آیت )