أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ
یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اللہ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔ (مخالفین سے) کہہ دو کہ میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو دنیا جہان کے سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے، اور بس۔
ف 4 یعنی توحید اور اصول عقائد میں ان کی راہ پر قائم رہیے کیونکہ تمام انبیا باتوں میں متفق ہیں یا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرح آپ بھی دشمنوں کی ایذا رسانی پر صبر کریں (وحیدی) اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جن امور میں کوئی نیاحکم نہیں آیا ان میں نبی (ﷺ) کو پہلے انبیأ ہی کے طریق پررہنے کا حکم تھا، بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس لیے نبی (ﷺ) نے سورۃ ص میں سجدہ فرمایا کیونکہ جس مقام پر یہ سجدہ ہے وہاں حضرت داود کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے۔ ( شوکانی) ف 5 اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت (ﷺ) ثقلین ( جن وانس) کی طرف مبعوث ہیں اور آپ کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے۔ (وحیدی )