وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
وہی اپنے بندوں پر مکمل اقتدار رکھتا ہے اور تمہارے لیے نگہبان (فرشتے) بھیجتا ہے۔ (٢٣) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کو پورا پورا وصول کرلیتے ہیں، اور وہ ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے۔
ف 1 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے جیساکہ قرآن کی متعد آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے تاہم اللہ تعالیٰ کےقاھر فوق عبادہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں پر کامل غلبہ اور اقتدار رکھتا ہے چنانچہ امام رازی لکھتے ہیں کہ یہاں فوقیة سے مراد قہر و قدرۃ ہے نہ کہ فوقیت بمعنی الجھة کیوں کہ مکان کی بلندی قہر اور غلبہ کو مستلز م نہیں ہے بغوی لکھتے ہیں کہ : القاھر الغالب وفی القھر زیادۃ معنی القدرۃ وھو منع غیرہ عن بلوغ المرام المراد ( معالم) یعنی قاہر کے معنی غالب كے هیں اور یه مطلق قدرت سے زائد صفت هے یعنی خود قادر ہونے کے ساتھ دوسرے کو مراد حاصل کرنے سے روک دینے والا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت یہ ہے کہ کائنات کو عدم سے وجود بخشا اور پھر وجود پر فنا اور فساد طاری کرتا رہتا ہے۔ پس ممکنات میں جس قدر بھی کون دفساد ہورہا ہے سب اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت کا مظہر ہے اور آیتİ قُلِ ٱللَّهُمَّ مَٰلِكَ ٱلۡمُلۡكِ .الخĬ ۔ صفت قہاریت کے پوری طرح تشیریح کر رہی ہے۔ (کبیر) ف2 جو تمہاری آفات سے حفاظت کرتے ہیں نیز تمہارے اعمال کو محفوظ کرتے ہیں۔ علما کے نزدیک یہاں حَفَظَةً سے اعمال لکھنے والے فرشتے مراد ہیں۔ ( کبیر) نیز دیکھئے (انفطار آیت 10 ق 18) ف 3 یعنی جس کی جان قبض کرتے ہیں اللہ کے حکم سے اس کے مقررہ وقت پر کرتے ہیں نہ اس سے پہلے نہ اسکے بعد اصل میں جان تو ملک الموت قبض کرتا ہے مگر اس کے ساتھ رحمت اور عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آیا موت کا فرشتہ ایک ہے یا بہت سے ؟ تو آپ (ﷺ) نے انہیں یہی جواب دیا اور دلیل میں یہ آیت تلاوت کی (المنار) نیز دیکھئے سورت سجدہ آیت 11 درحقیقت موت وحیاۃ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ( حج 66) مگر فرشتے چونکہ اس کی طرف سے مامور ہیں اس لیے ان کی طرف بھی روح قبض کرنے کی نسبت کردی گئی ہے۔ (قرطبی)