أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(مسلمانو !) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ (کلام حق پر غور کریں گے اور اس کی سچائی پرکھ کر) تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور اس کا مطلب سمجھتا تھا لیکن پھر بھی جان بوجھ کر اس میں تحریف کردیتا تھا (یعنی اس کا مطلب بدل دیتا تھا)
ف 4 :یہ خطاب مسلما نوں سے ہے کہ یہود سے ایمان کی تو قع بے سود ہے ان کے اسلاف یہ ہیں کہ وہ دیدہ ودانستہ کلام اللہ یعنی تورات میں تحریف کر ڈالتے تھے۔ اس جگہ لفظ تحریف لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریف کو شامل ہے انہوں نے تورات کے الفاظ بھی بدل ڈالے تھے مگر زیادہ ترغلط تاویلوں سے معانی تبدیل کرنے کی کو شش کرتے تھے موجودہ یہود کے علماء نے ان آیات تورات کو بدل ڈلا تھا جن میں آنحضرت (ﷺ) کے اوصاف مذکور تھے اور اپنے دل سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرا دیا ہے۔( ملخص ابن کثیر وقرطبی) آجکل کے باطل پرست علماء بھی اپنے مز عومہ مسائل کی صحت ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حوالہ جات قرآن حدیث سے تراش رہے ہیں اور شریعت میں تحریف کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ (ترجمان)