قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
(اے رسول) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں (٩)
ف9 نبی کریم (ﷺ) نے جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی قوم کے تمام لوگ آپ (ﷺ) کو امین اور صادق کہتے تھے لیکن جونہی آپ (ﷺ) نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنانا شروع کیں تو ان میں سے اکثر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ (ﷺ) کو (نعوذ باللہ) جھوٹا قرار دینے لگے ابو جہل سے بڑھ کر آپ کا کون دشمن ہوگا۔ لیکن حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے نبی (ﷺ) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا(وَلَا نُكَذِّبُكَ، وَلَكِنْ نُكَذِّبُ الَّذِي جِئْتَ بِهِ) ہم آپ (ﷺ) کو تو جھوٹا نہیں کہتے لیکن جو پیغام آپ (ﷺ) لے کر آئے ہیں اسے جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ ایک دوسرے موقع پر اسی ابو جہل نے اخنس بن شریق سے تنہائی میں کہا اللہ کی قسم محمد (ﷺ) ایک سچاانسان ہے اور ساری عمر میں اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن جب لوأ، سقایت حجابت اور نبوت سب بنی قصیٔ ہی کے حصہ میں آجائیں تو بتاؤباقی قریش کے پاس کیا رہ گیا۔ ( حاکم، ابن ہشام) اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آنحضرت (ﷺ) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ جو آپ کی تکذیب کر رہے ہیں وہ حقیقت میں آپ (ﷺ) کی نہیں بلکہ ہماری آیات كی تکذیب ہے کیونکہ شخصی لحاظ سے تو یہ آپ (ﷺ) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتے اس سے مراد دراصل وہ کفار ہیں جو بشر کے نبی اور رسول ہونے کا محال سمجھتے ہیں (ابن کثیر)