سورة الانعام - آیت 19

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کہو : کون سی چیز ایسی ہے جو (کسی بات کی) گواہی دینے کے لیے سب سے اعلی درجے کی ہو ؟ کہو : اللہ (اور وہی) میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اور مجھ پر یہ قرآن وحی کے طور پر اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے میں تمہیں ڈراؤں، اور ان سب کو بھی جنہیں یہ قرآن پہنچے۔ کیا سچ مچ تم یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دو کہ : میں تو ایسی گواہی نہیں دوں گا۔ کہہ دو کہ : وہ تو صرف ایک خدا ہے اور جن جن چیزوں کو تم اس کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 10 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت رؤسا اہل مکہ کے جواب میں ہے انہوں نے آنحضرت (ﷺ) سے مطالبہ کیا کہ آپ (ﷺ) اپنے صدق نبوت کی شہادت پیش کریں کیونکہ اہل کتاب کہتے ہیں کہ توراۃ میں تمہارے آخری رسول ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس بات کا اللہ گواہ ہے کہ اس نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اللہ تعالی کی گواہی یہ ہے کہ اس نے مجھ پر قرآن اتارا ہے جو اپنے معجز ہونے کے اعتبار سے میرے سچے نبی ہونے کی صریح دلیل ہے اسی کے پیش نظر فرمایا İوَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا ٱلۡقُرۡءَانُĬ الخ (رازی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں گواہی فرمایا قسم کو یعنی میں قسم کھاتا ہوں اللہ کی اس سے زیادہ کیا قسم ہوگی۔ ( موضح) ف 11 وَمَنۢ بَلَغَۚسے جمیع عرب عجم یاجن وانس مراد ہیں اور اس سے مقصد یہ ہے کہ میری رسالت عالمگیر اور قیامت تک کے لیے ہے۔ (رازی) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (ﷺ) نے روم وایران و حبشہ تمام ممالک کو دین اسلام کی دعوت دی۔ (ابن مردویہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ’’جسے قرآن پہنچ گیا اسے گو یا میں نے اپنی زبان سے پہنچا یا‘‘ (ابن جریر وغیرہ) قرآن مجید اور حدیث پاک کے احکام عالمگیر اور ناقبل تغیر اور قیامت تک کے لیے ہیں۔ قرآن کے احکام کو عہد نبوی تک محدود رکھنا اور تغیر احوال کے ساتھ تغییر فتویٰ کی آڑ میں قرآن کے نصوص سے گلو خلاصی کرانے کی بہانے ڈھو نڈنا تحریف کے مترادف ہے’’ تغییر احوال سے تغییر فتویٰ ‘‘کا اصول صرف اجتہادی مسائل تک محدود ہے اور ائمہ کی فقہ اور ان کے فتادیٰ اس بات کی کھلی شہادت ہیں پھر جو لوگ فقہ ائمہ کو دائمی احکام کی حیثیت دے کر ان کی تقلید کے قائل ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں صحیح یہ ہے کہ ائمہ نے اپنے زمانہ کے احوال وظرف کو سامنے رکھ کر اجتہادی مسائل مستنبط اور مرتب کئے تھے ( م، ع) ف 12 یاجن کو تم اللہ کا شریک قراردیتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔ (وحیدی )