مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں نے ان لوگوں سے اس کے س وا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، اور وہ یہ کہ : اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ اور جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، میں ان کے حالات سے واقف رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگراں تھے، اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں۔
ف11یعنی صرف اللہ ہی كی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے ! ف 12 لفظ وفات قرآن پاک میں تین معنی میں آیا ہے ایک موت جیسے İٱللَّهُ يَتَوَفَّى ٱلۡأَنفُسَ حِينَ مَوۡتِهَا Ĭ (الزمر) دوسرے خواب جیسےİوَهُوَ ٱلَّذِي يَتَوَفَّىٰكُم بِٱلَّيۡلِ Ĭ (انعام) تیسرے رفع جیسا کہ اس آیت میں ہے (دیکھئے آل عمران آیت 55 والنسا آیت 158 (ترجمان نواب) ف 13 یعنی ان میں میری مو جودگی کے وقت بھی تو ہی شہید تھا۔ اور میرے الگ ہونے کے بعد بھی توہی شہید ہے ۔شھید اسمائے حسنیٰ سے ہے اور شہید بمعنی رویت وعلم بھی ہوسکتا ہے۔ اور شہادت با عتبار کلام بھی مراد ہوسکتی ہے ( رازی) مگر دوسروں کے حق میں مطلق شہید یا شاہد کا لفظ جب کہ کوئی خاص قرینہ نہ ہو) شھادت بالکلا کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے (م، ع )