سورة البقرة - آیت 71

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس پر موسیٰ نے کہا اللہ فرماتے ہے۔ ایسی گائے ہو جو نہ تو کبھی ہل میں جوتی گئی ہو نہ کبھی آب پاشی کے لیے کام میں لائی گئی ہو۔ پوری طرح صحیح سالم، داغ دھبے سے پاک و صاف۔ (جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو پھر عاجز ہو کر بولے۔ ہاں اب تم نے ٹھیک ٹھیک بات بتلا دی۔ چنانچہ جاور ذبح کیا گیا۔ اگرچہ ایسا کرنے پر وہ (دل سے) آمادہ نہ تھے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3 :اسرائیلی روایات میں یہ بھی ہے کہ آخر کار انہیں ان تمام صفات کی گائے ایک ایسے شخص کے پاس ملی جس کے پاس کوئی دوسری گائے نہ تھی اس لیے وہ کہنے لگا میں اپنی گائے اس قیمت پر فروخت کروں گا کہ تم اس کی کھا ل مجھے سونے سے بھر دو۔ چنا نچہ انہوں نے اسی قیمت پر ان سے یہ گائے خریدی ،۔ (ابن جریر) حدیث میں ہے کہ ابتداء میں اگر وہ کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو کافی ہوجاتی مگر انہوں نے تعنت اور بے جا سوالات کئے تو اللہ تعالیٰ نے تشدد برتا۔ (فتح القدیر ) ف 1: یعنی گراں قیمت اور فضیحت کے خطرے اور ان کے تعنت کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے ذبح کرنا نہیں چاہتے۔ حدیث میں ہے کہ اگر ان شاء اللہ نہ کہتےتو آخر ابد تک حال گائے کانہ کھلتا۔ اس کو ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ سے مرفوعا روایت کیا ہے ،۔ ( فوائد سلفیہ) مسئلہ۔ جس طرح اس ترجمہ میں اوصاف کے بیان کرنے کو تعیین کے لیے کافی سمجھا ہے۔ اسی طرح آنحضرت (ﷺ) نے قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے اونٹوں کے بھی اوصاف بیان کیے ہیں، اس سے ثا بت ہوتا ہے کہ اوصاف کے بیان سے حیوان کی تعیین ہوجاتی ہے لہذا حیوان میں بیع سلم جائز ہے یہی جمہور علماء سلف وخلف کا مسلک ہے مگر اما ابو حنیفہ اور علمائے کوفہ اس میں بیع سلم کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ (ابن کثیر )۔ اس قصہ سے یہود کو تنبیہ بھی مقصود ہے جس طرح گائے کے ذبح کرنے میں طرح طرح کے جھگڑے نکا لنے کی وجہ سے تمہارے بزرگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدائد میں گرفتار ہوئے اس طرح تم بھی نبی آخرالزمان کے اوصاف چھپا کر ان کی اتباع سے گریز کی راہیں نکالتے رہو گے تو تمہارا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ (قرطبی۔ رازی )