وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
اور (اس وقت کا بھی ذکر سنو) جب اللہ کہے گا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو معبود بناؤ؟ (٧٩) وہ کہیں گے : ہم تو آپ کی ذات کو (شرک سے) پاک سمجھتے ہیں۔ میری مجال نہیں تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کو یقینا معلوم ہوجاتا۔ آپ وہ باتیں جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیِ اور میں اور آپ کی پوشیدہ باتوں کو نہیں جانتا۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے۔
ف 5 اس کا تعلق اوپر کی آیت İوَإِذۡ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَىĬ کے ساتھ ہے گویا پہلے بطور تمہید حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اپنے انعامات شمار کئے ہیں اور اب اصل مقصد شروع ہوا ہے یہ مخاطبہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھانے کے بعد یہ مکالمہ ہوچکا ہے مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ابتدا میں آیت کہ İيَوۡمَ يَجۡمَعُ ٱللَّهُ ٱلرُّسُلَĬ اور اخر میںİهَٰذَا يَوۡمُ يَنفَعُ ٱلصَّٰدِقِينَ صِدۡقُهُمۡĬ سے جن سے یقینا قیامت کا دن مراد ہے۔، ( کبیر، قرطبی) اس غرض بھی نصاریٰ کو تو بیخ ہے،( ابن کثیر ) ف 6 تیرا کوئی شریک نہیں پھر بھلا میں اور میری ولده تیرے شریک کیسے ہو سکتے ہیں۔ ف 7 یعنی میں تو تیرے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں پھر بندے کی کیا مجال کہ ا پنے آقا کے مقابلہ میں خدائی کا دعویٰ کرے ف 8 یعنی بالفرض میں نے ایسی کوئی بات کہی ہو تو تجھے اس کا ضرور علم ہوگا کیونکہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی ف 9 تو زبان سے نکلالی ہوئی بات کیوں نہ جانے گا ! ف 10 تیرے سواکسی کو علم غیب نہیں جس بندے کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب تیرا عطاکردہ ہے اور کسی کا علم تیرے علم کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنی سمندر کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ۔