ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اس طریقے میں اس بات کی زیادہ امید ہے کہ لوگ (شروع ہی میں) ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا اس بات سے ڈریں کہ ( جھوٹی گواہی کی صورت میں) ان کی قسموں کے بعد لوٹا کر دوسری قسمیں لی جائیں گی (جو ہماری تردید کردیں گے) اور اللہ سے ڈرو، اور (جو کچھ اس کی طرف سے کہا گیا ہے اسے قبول کرنے کی نیت سے) سنو۔ اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ف 8 اس آیت میں اظہار کو شہادت فرمایا ہے مدعی اظہار کرے یا مدعا علیہ جیسے اقرار کو کہہ دیتے ہیں کہ اس نے اپنی جان پر شہاددت دی (کذافی الموضح ) ف 9 لہذا جھوٹی قسم نہ کھا ؤ اور وصیت میں کسی وارث کی حق تلفی نہ کرو۔ (شوکانی) آیت کی شان نزول میں مذکور ہے کہ ایک مسلمان (بدیل) اور دو نصرانی تیمم داری اور عدوی ایک سفر پر گئے بدیل بیمار پڑگیا اور اس نے اپنے سامان کی فہرست بناکر اس میں رکھ دی اور سامان اپنے نصرانی ساتھیوں کے سپرد کردیا کہ میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ ان نصرانیوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک جام (پیالہ) اڑالیا وہ پیالہ مکہ میں پکڑاگیا ،وارثوں نے آنحضرت (ﷺ) کے حضور دعویٰ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی آخر وراثوں نے قسم کھاکر اس پیالے کی قیمت وصول کرلی ( ملخصا ازا بن کثیر)