فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
پھر بعد میں اگر یہ پتہ چلے کہ انہوں نے (جھوٹ بول کر) اپنے اوپر گناہ کا بوجھ اٹھا لیا ہے تو ان لوگوں میں سے دو آدمی ان کی جگہ (گواہی کے لیے) کھڑے ہوجائیں جن کے خلاف ان پہلے دو آدمیوں نے گناہ اپنے سر لیا تھا (٧٤) اور وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان پہلے دو آدمیوں کی گواہی کے مقابلے میں زیادہ سچی ہے، اور ہم نے (اس گواہی میں) کوئی زیادتی نہیں کی ہے، ورنہ ہم ظالموں میں شمار ہوں گے۔
ف 6 یعنی انہوں نے جھوٹی گواہی دی یا جھوٹی قسم کھائی یا خیانت کا ارتکاب کیا (شوکانی) ف 7 مترجم لکھتے ہیں کہ یہ ترجمہ قرات حٖفص پر ہے لیکن اکثرنے یوں تر جمہ کیا ہے، تو ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے (گواہی کے لیے) کھڑے ہوں جن کا حق پہلے دوگوا ہوں نے دبایا ہے یعنی میت کے قریبی رشتہ داروں میں سے اس لیے کہ وہ گواہی دینے اور قسم کھا نے کے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ حق دار ہیں۔ (کذافی، شوکانی) میت کے وارثوں سے قسم اس لیے لی گئی کہ ان کافروں نے دعوی ٰ کیا تھا کہ وہ مسروقہ پیالہ مرنے والے نے ہمارے ہاتھ بیچ ڈالا تھا اور وارث اس بیع سے انکار کرتے تھے اور مدعی کے پاس گواہ موجود نہ تھے اس لیے منکر (وارثوں) پر قسم عائد کی گئی (کبیر )