قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ
تم سے پہلے ایک قوم نے اس قسم کے سوالات کیے تھے، پھر ان (کے جو جوابات دیے گئے ان) سے منکر ہوگئے۔ (٧٠)
ف 6 یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ اپنے انبیا سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دے دی جاتی تو اس سے باز نہ آتے اور فرض قرار دے جاتی تو یحانہ لاتے اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہر تے یہ ساری آفت بلا ضرورت کثرت سوال سے آتی اس کی اس روش کی متعدد مثالیں سورۃ بقرہ میں گزرچکی ہیں بعض روایات میں ہے کہ جب آیت وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا آل عمران 97) نازل ہوئی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سواک کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا حج ہر سال فرض ہے اس نے یہی سوال دوتین مرتبہ کیا مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہ دیا پھر فرمایا کہ اتر میں نعم (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا اور تم بجانہ لاتے تو کافر ہوجاتے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں : یا یھا الذین امنو الا تسئلو ( ابن کثیر )