يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (٦٩) (البتہ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔
ف 2 یعنی رزق حرام کی فراوانی اور اس پرعیش وعشرت گو بظاہر کتنی خوش کن کیوں نہ ہو مگر انسان کو چاہیے کہ رزق حلال پر قناعت کرے خواہ وہ طاہر میں کتنا ہی حقیر ارکم کیوں نہ ہو، ج ف 3 یعنی بلا ضرورت سوال کرو گے اور تمہاری مصلحت کے خلاف اس کا حکم اتر آیا ہے تو خواہ مشکل میں پڑ جاو گے اور پھر بجا نہ لانے کی صور میں اللہ تعالیٰ کے رسول کے نافرمان قرار پاو گے۔ ف 4 اور اسی طرح تم بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر فرض قرار دے لوگے اس بنا پر متعدد روایات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کثرت سوال سے منع فرمایا ہے ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس کے سوال کے سبب کوئی ایسی چیز حرم ہوگئی جو پہلے حرام نہ تھی۔ (دیکھئے بقرہ آیت 108۔ ابن کثیر) ف 5 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور معافی ہے کہ اس نے ان چیزوں کے بیان نہیں کیا اور تمہا رے لیے ان کے ذکر نے اور نہ کرنے کی گنجائش باقی چھوڑدی (کبیر۔ ابن کثیر )