لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری پکڑ نہیں کرے گا (٥٩) لیکن جو قسمیں تم نے پختگی کے ساتھ کھائی ہوں، (٦٠) ان پر تمہاری پکڑ کرے گا۔ چنانچہ اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا ان کو کپڑے دو، یا ایک غلام آزاد کرو۔ ہاں اگر کسی کے پاس (ان چیزوں میں سے) کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم نے کوئی قسم کھالی ہو (اور اسے توڑ دیا ہو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ (٦١) اسی طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے سامنے واضح کرتا ہے، تاکہ تم شکر ادا کرو۔
ف 7 بعض نے اوسط کے معنی عمدہ کئے ہیں، ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ ج اوسط باعتبار مقدار کے ہے یعنی ہر مسکن کو اک عد (10 چھٹانک) غلے دے دے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو پندرہ صا ع ( 60 مد) کھجوریں دی تاکہ رزے کا کفارہ ادا کرے اور فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو۔ ( ابن کثیر ) ف 1 یعنی کھانا کہ کھلا دتے نہ کپڑا پہنا سکے اور نہ غلام آزاد کرنے کی طاقت ہو تو دو روزے رکھ لے چاہے پے درپے رکھے اور چا ہے الگ الگ کرکے۔، عبد اللہ بن مسعود کی قرات میں ج متقا بعات ہے یعنی پے درپے روزے رکھے بعض ائمہ اسی کو اختیار کیا ہے۔ ف 2 یعنی حتی المقدور قسم کھانے سے پر ہیز کرو لیکن قسم کھالو اور پھر اسے توڑ دو تو اس کا کفارہ ادا کرو حتی المقدور قسم کو پورا کرنے کی کو شش کرو گر جب یہ قسم کسی بہتر چیز کے چھوڑ ن پر ہو تو اسے توڑ کر اس کا کفارہ ادا کر دو جیسا کہ حدیث، میں من حلف علی یمبن فری ٰ غیر ھا خیر منھا فلیات الذی ھو خیر ثم لیکفر من یمبنہ۔ کہ جس نے کسی چیز کے کے متعلق قسم کھائی پھر جب اس کے خلاف کو بہتر سمجھا تو وہ بہتر کام کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے (کبیر )