يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو ! اللہ نے تمہارے لیے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار دنہ دو، اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقین جانو کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (٥٨)۔
ف 4 نقض عہود کے سلسلہ میں یہود و نصاریٰ سے مباحثہ کے بعد اب اصل موضوع کی طرف پھر تو جہ کی ہے یعنی کہ أَوۡفُواْ بِٱلۡعُقُودِۚ کی تشریح جو اس سورۃ کا اساسی موضوع ہے (قرطبی۔ کبیر) رہبان نصاریٰ کی مدح کے بعد طیبات کی تحریم سے ممانعت یوں بھی انسب ہے کہ انہوں نے ان با توں کو نیکی میں داخل کررکھا تھا لہذا مومنین کو منع فرمادیا، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جو چیز شرع میں صاف حلال ہو اس سے پر ہیز کرنا برا ہے۔ یہ دو طرح سے ہوتا ہے ایک زہد سے ،یہ رہبانیت ہے جو ہمارے دین میں پسند یدہ نہیں ہے۔ اس کی بجائے تقویٰ اختیار کیا جائے یعنی ممنوع چیز کے قریب نہ جائے۔ دوم یہ کہ کسی مباح کام کے نہ کرنے کی قسم کھالے یہ بھی بہتر نہیں ہے اسے چاہیے کہ قسم توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ ( از موضح) ایک مرتبہ چند صحابہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے دریافت کیا کہ آنحضرت (ﷺ) جب گھر میں ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں حضرت عائشہ نے آپ (ﷺ) کے معمولات بتائے، ان میں سے کوئی کہنے لگا کہ میں کبھی گوشت نہیں کھاو گا کوئی کہنے لگا کہ عورتوں سے کوئی واسطہ نہ رکھو گا کوئی کہنے لگا کہ میں رات کو بستر پر نہ سوؤں گا یعنی ساری رات قیام کروں گا آنحضرت (ﷺ) کو اطلاع ہوئی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں حلانکہ میں یہ سب کام کرتا ہوں لہذا جس نے میری سنت سے بے رغبتی کا مظاہرہ کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں (بخاری مسلم) اس سلسلہ میں اور بھی بہت سی روایات ہیں جن میں سے بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ آیت ایسے ہی کسی موقع پر نازل ہوئی ( ابن کثیر)