وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب یہ لوگ وہ کلام سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو چونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہوتا ہے، اس لیے تم ان کی آنکھوں کو دیکھو گے کہ وہ آنسوؤں سے بہہ رہی ہیں۔ (٥٧) (اور) وہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں، لہذا گواہی دینے والوں کے ساتھ ہمارا نام بھی لکھ لیجیے۔
ف 1 یعنی وہ روتے ہیں سمعوا کی ضمیر ان علما ورہبان کی طرف پلتی ہے جو ان میں سے مسلمان ہوگئے تھے حضرت ابن عباس (رض) اور عبد اللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ قصہ یہ ہے کہ کچھ مسلمان مکہ سے ہجرت کرک کے حبشہ کے عیسائی بادشاہ اصفحہ (رح) نجاشی کے پاس چلے گئے کفار مکہ نے باشاہ کو اکسایا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی اہانت کرتے ہیں اور ان کو عبد (غلام) کہتے ہیں اس پر نجاشی نے مسلمونوں کو اپنے دو بار میں بلایا اور منجملہ دوسرے سوالات کے ایک سوال حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے متعلق بھی کیا اس حضرت جعفر (رض) طیار نے سو رہ مریم ( علیہ السلام) پڑھ سنائی تو نجاشی نے سن کر کہا کہ بعینہ یہی چیز انجیل میں ہے اور وہ رونے لگا (کبیر، ابن جریر) سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے نجاشی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اور اپنی قوم کے اسلام لانے کی اطلاع دی تھی یہ ستر۔ اور بعض روایا کے مطابق تیس۔ آدمی تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خد مت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے سورت یاسین تلاوت فرمائی جسے سن کر وہ رونے گلے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر مگر یہ آیت عام ہے اور اس صفت کے ساتھ جو بھی متصف ہو وہی اس کے مصدق بن سکتے ہیں (ابن کثیر )