لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
بنو اسرائیل کے جو لوگ کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی تھی (٥٤) یہ سب اس لیے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی تھی، اور وہ حد سے گزر جایا کرتے تھے۔
ف 3 پہلے حضرت دواد نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا اور پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اصحاب مائدہ پر لعنت فرمائی جو یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود ایمان نہ لائے بعض علمانے نے لکھا ہے کہ یہود اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا دعوی کرتے تھے قرآن نے فرمایا کہ تم تو انبیا کی زبان پر معلون ہو اور فرمایا کہ یہ لعنت نافرمانی میں حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہوئی تھی (کبیر۔ ابن کثیر) یہ ان کی معصیت ور اعتدال کی تفسیر ہے (کبیر) یعنی وہ امر بالمعرو ونہی عن المنکر کا فریضہ بھلا بیٹے تھے اور ان کے نیک لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر کچھ لوگ برے کا کر رہے ہیں تو کرتے رہیں انکا وبال خود ان پر ہوگا ہم تو اپنی جگہ پر نیک ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں پہلے یہ خرابی آئی کہ آج یک شخص دوسرے سے ملتا ہے تو اسے برائی پر ٹوکتا اور اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا لیکن کل یہی شخص اس کے ساتھ کھانے پینے لگتا۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل آپس میں ْٹکرادیئے اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر صحابہ (رض) سے فرمایا سن رکھو یعنی اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں تم لوگ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی اسی طرح لعنت فرمائے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی (ابو داد ترمذی) حدیث میں ہے کہ جن کوئ ی قوم ام بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ بٹھتی ہے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی (ابن کثیر) یعنی اسلاف کی وہ حالت تھی اور اب جو موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے (کبیر) جیسے کعب بن اشرف اور مدینہ کے یہودی قبائل کے دوسرے افراد مسلمانوں کی دشمنی میں مکہ کے مشرکین سے دوستی رکھتے تھے مجاہد فرماتے ہیں منافقین مراد ہیں جنہوں نے مومنین کی بجائے کفار سے دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے، (کبیر ابن کثیر )