سورة المآئدہ - آیت 77

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اور ان سے یہ بھی کہو کہ) اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو (٥٣) اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 12 یہود ونصاریٰکی الگ الگ تردید کے بعد اب دونوں کو مخاطب فرمایا ہے (کبیر) نصاریٰنے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے معاملہ میں غلو کیا ہے اور ایک بشر جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت بخشی تھی اور اسے اپنی قدرت کاملہ کی نشانی قرار دیا تھا (زخرف59،مؤمون50)اسے مقام الوہیت پر کھڑا کر دیا۔دوسری طرف یہود نے ان کی تکذیب کی ،ان سے انتہائ توہین آمیز سلوک کیا ،ان پر اور ان کی والدہ پر تہمت طرازی کی اور ان کے قرل کے در پے ہوئے بلکہ بقول نصاریٰیہود نے حضرت مسیح کو سولی دے دی اور ان کی پسلیوں کو ریزہ ریزہ کرڈالا (کبیر، ابن کثیر) یہ حقیقت ہے کہ دین میں جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو (یعنی راہ اعتدال کو چھوڑنے) کی وجہ سے آئی ہے اسی لیے آنحضرت (ﷺ) نے مسلمانوں کو باربار نصیحت فرمائی کہ میرے معاملہ میں حد سے نہ بڑھنا اور مجھے بشریت کے مقام سے اٹھاکر خدائی کے مرتبہ تک نہ پہنچا دینا ( ماخوذ از وحیدی) ف 1 پہلے فرمایا کہ گمراہ ہوئے پھر فرمایا کہ سیدھی راہ سے بہک گئے گویہ دو نوں بظاہر ایک ہی ہیں مگر علما نے لکھا ہے کہ اول سے مراد یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے اور دوسرے ضَلُّواْسے مراد یہ ہے کہ وہ اب تک اس گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی گمراہی سے مراد عقیدہ کی گمراہی ہو اوردوسری سے عمل کی گمرہی مراد ہو (کبیر )