لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ
ہم نے بنو اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ان کے پاس رسول بھیجے تھے، جب کوئی رسول ان کے پاس کوئی ایسی بات لے کر آتا جس کو ان کا دل نہیں چاہتا تھا تو کچھ (رسولوں) کو انہوں نے جھٹلایا اور کچھ کو قتل کرتے رہے۔
ف 9 اس سے مقصود بنی اسرائیل کی سرکشی اور وفائے عہد سے انحراف کو بیان کرنا ہے گویا اس کا تعلق ابتدائے سورت İأَوۡفُواْ بِٱلۡعُقُودِۚĬ سے ہے (کبیر) یعنی ان سے عہد لیا کہ توحید وشریعت پر قائم رہیں گے اور جو رسول ان کی طرف بھیجے جائیں گے ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے (ابن کثیر) ف 10 یعنی شرائع اور احکام کی تعریف اورتشریح کے لیے (کبیر) ف 11 تو ان سے دشمنی کی پس کلما کا جواب محذوف ہے ای نا صبوہ كیو نکہ بعد کا کلام اس پر دال ہے (کبیر )