سورة البقرة - آیت 65

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یقیناً تم ان لوگوں کے حال سے بے خبر نہیں ہو جو تم ہی میں سے تھے اور جنہوں نے "سبت" (یعنی تعطیل اور عبادت کے مقدس دن) کے معاملہ میں راست بازی کی حدیں توڑ ڈالی تھیں (یعنی حکم شریعت سے بچنے کے لیے حیلوں اور مکاریوں سے کام لیا تھا) ہم نے کہا ذلیل و خوار بندروں کی طرح ہوجاؤ (انسانوں کے پاس سے ہمیشہ دھتکارے نکالے جاؤ گے)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 بنی اسرائیل پر انعامات ذکر کرنے کے بعداب یہاں بعض تشدید کا بیان شروع ہو رہا ہے مفصل سورۃ عمران میں ہے کہ ہفتہ کے دن ان کو شکار کی ممانعت تھی مگر اس ممانعت کے باوجود انہوں نے فریب اور حیلہ سازی سے شکار کرنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی سزا میں ان کی شکلیں مسخ کر کے بندروں جیسی بنا دیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسخ شدہ قوم تین دن کے بعد زندہ نہیں رہتی۔ (قرطبہ) ایک صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جو صحیح مسلم (کتاب القدر) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے بخاری میں جو بندروں کے رجم کا واقعہ ہے اول تو یہ کہ عمرو بن میمون تابعی نے ایک جاہلی واقعہ بیان کیا ہے حدیث نہیں ہے اور اس میں میں بہت سے احتمالات ہو سکتے ہیں اور پھر بخاری کے اکثر نسخوں میں یہ واقعہ مذکور بھی نہیں ہے اس بنا پر یہ قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔ (قرطبی) اس آیت میں امت محمدیہ کو بھی تنبیہ ہے کہ مبادا تم بھی یہود کی روش اختیار کو لو اؤ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے گا حدیث میں ہے کہ یہود کی طرح ادمی ترین حیلوں سے اللہ تعالیٰ کے محارم کو حلال بنانے کی کو شش نہ کرنا۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ماجہ) مغرب کے یہود اور عیسائیوں کے ہاں سے علم اور ضرورت کے نام سے بعض مسئلے آتے ہیں تو مسلمانوں کو مرعوب ذہن ارتقائی ضرورتوں کی آڑ میں قرآن و حدیث سے ان کے جواز پر دلائل کشید کرنا شروع کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ایسے نادان دوستوں سے محفوظ رکھے (م، ع)