إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(مسلمانو) تمہارے یارومددگار تو اللہ، اس کے رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو اس طرح نماز قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے ہیں کہ وہ (دل سے) اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔
ف 5 اوپر کی آیات میں کفار سے موالا ۃ کو ممنوع قرار دیا اب اس آیت میں انما کلمہ حصر کے ساتھ مومنین سے موالاۃ کا حکم فرمایا یعنی یہود کو مددگار اور دوست نہ بنا و بلکہ صرف مومنین کو اپنا دوست اورمدد گار سمجھو۔ (کبیر، ابن کثیر) یہاں وَهُمۡ رَٰكِعُونَ کے معنی ہیں فروتنی اور عاجزی کرنے والے۔ چنانچه قرآن میں دوسرے مقام پر ہے İوَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌĬ (المومنون : ٦٠) کہ وہ لوگ جو صدقہ و خیرات اس حال میں کرتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں (کبیر۔ ثنائی) بعض علمانے وَهُمۡ رَٰكِعُونَ کو يُؤۡتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ کے فاعل سے حال قرار دے کریہ ترجمہ کیا ہے کہ وہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور پھر بعض روایات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت علی (رض) نے رکوع کی حالت میں انگو ٹھی صدقہ کی تھی اس پر ان کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی مگر یہ روایات بہت ضعیف اور کمزور ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان روایات پر سخت تنقید کی ہے اور انكوبے اصل قرار دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان روایات کی روسے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرنا زکوٰۃ دینے کی افضل ترین صورت ہے مگر آج تک کسی عالم نے یہ فتوی نہیں دیا۔ (ابن کثیر المنار ) پس صحیح یہ ہے کہ یه آیت عام مومنین کے حق میں نازل ہوئی ہے اور حضرت عبادہ (رض) بن صامت اور ان کے رقفا (رض) اس آیت کے اولین مصداق ہیں جنہوں نے آنحضرت (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہود کی مولاۃ سے برأت کا اعلان کردیا تھا۔ امام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین (رض) سے پوچھا گیا کہ وہ وَلِيُّكُمُ سے مراد حضرت علی (رض) ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) بھی من جملہ مومنین کے ہیں یعنی یہ آیت سب مومنین کے حق میں ہے باقی رہی یہ بات کہ یہاں اقامة الصلوٰۃ الخ میں جو صفات مذکور ہیں ان سے کیا مقصود ہے تو ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ صفات سے منافقین پر طنز مقصود ہے جو ان صفات سے عاری تھے۔ (کبیر)