وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ
اور ہم نے ان (پیغمبروں) کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا، اور جو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والی اور متقیوں کے لیے سراپا ہدایت و نصیحت بن کر آئی تھی۔
ف 7 یعنی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کوئی نئی شریعت یا نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ تورات ہی کی تصدیق کرنے اور اسی کی شریعت کو زندہ کرنے آئے تھے۔ وہ خود بھی اسی کی شریعت پر چلتے تھے اور انجیل بھی اسی شریعت پر چلنے کا حکم دیتی تھی۔ (ابن کثیر۔ کبیر) تورات انجیل اور پھر قرآن کریم کے متعلق ھد ی ونور کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ان کتب منزلہ کا ہدایت ہونا تو احق اعتبار سے ہے کہ یہ مبدا دمعاد کے حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں اور نو راد روشنی ہونا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کے عملی زندگی میں رہمنائی کا کام دیتی ہے (کبیر )