وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ
اور یہ کیسے تم سے فیصلہ لینا چاہتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا فیصلہ درج ہے؟ پھر اس کے بعد (فیصلے سے) منہ بھی پھیر لیتے ہیں (٣٨) دراصل یہ ایمان والے نہیں ہیں۔
ف 5 اس میں یہود کو تنبیہہ ہے جو حد رجم (سنگساری) کا انکار کرتے تھے اور ان کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے اسلاف۔ انبیا احبار اور علمائے ربانی کا مسلک اختیار کریں۔ (کبیر) بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) تک سینگڑوں پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور وہ اپنے زمانے میں لوگوں کو تورات ہی پر عمل کرنے کی نصیحیت کرتے اور ان کے مابین اسی کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے تھے خود حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بعثت کا مقصد تورات ہی کی شریعت کو زندہ کرنا تھا۔ الذین ااسلموا یہ صفت مدح ہے اور ان انبیا ( علیہ السلام) کے کے مسلمان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ دین ابراہیم کے تابع تھے یا للہ تعالیٰ کے فرمانبر دار تھے (قرطبی)