سورة المآئدہ - آیت 42

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ کان لگا لگا کر جھوٹی باتیں سننے والے، جی بھر بھر کر حرام کھانے والے ہیں۔ (٣٦) چنانچہ اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو چاہے ان کے د رمیان فیصلہ کردو، اور چاہے ان سے منہ موڑ لو (٣٧) اگر تم ان سے منہ موڑ لو گے تو یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، اور اگر فیصلہ کرنا ہو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہود میں سے ایک مر اور ایک عورت نے زنا کا ارتکاب کرلیا وہ دونوں شاد ی شدہ تھے۔ ان کے علماے نے باہم مشورہ کر کے طے کیا اس مقدمہ کا فیصلہ محمد ﷺ سے کرالیتے ہیں کیونکہ وہ نرم شریعت لے کر آئے ہیں۔ْ اگر انہوں نے کوڑے مارنے کا حکم دی اتو ہماری مراد بر آئے گی اور اگر انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو ہم ان کا فیصلہ ٹھکرا دیں گے چنانچہ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) کتب صحاح میں ہے کہ جب یہودی اپنا یہ مقدمہ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں تورات پڑھنے کا حکم دیا تو چنانچہ ایک آدمی پڑھنے لگا اور جب وہ آیت رجم پر پہنچا تو اس پر ہاتھ رکھ کر اگلی آیت پڑھی دی اس پر حضرت عبد اللہ بن سلام نے اسے ٹوک دیا اور اس کا ہاتھ ہٹاکر آیت رجم پڑھنے کا حکم دیا چنانچہ آنحضرت ﷺ کے سامنے سار معاملہ کھل گیا اور آپ ﷺ نے زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا انی احکم بما فی التورات کہ میں تورات کے مطابق تمہارے مقدمہ کا فیصلہ سے رہاہوں (قر طبی، ابن کثیر) ف 2 سحت کے لفظی معنی مٹانے اور ہلاک کرنے کے ہیں گویا مال حرام وہ چیز ہے جو انسان کی تمام نیکیوں کو اکارت کر کے رکھ دیتی ہے اور ہر اس خسمیں مال پر سخت کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے لینے میں رہو اور خفیہ طور پر لیا جائے نے اس میں رشوت بھی شامل ہے اور احادیث میں زانیہ کی اجرت کتے شراب اور مردار بیجنے کو سخت کہا گیا ہے سود چوری کا مال اور جوئے سے کمایا ہو امال بھی سحت میں داخل ہے ( کبیر، قرطبی) ف 3 جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی یہودیوں کی ٖحیثیت محض ایک معاہد قوم کی تھی اور وہ نرمی یعنی اسلامی حکومت کی رعایا نہ تھے اس لیے نبیﷺ کی عدلت کو اختیا ردیا گیا کہ چاہیں تو انکے مقدمات کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اور یہی اختیار اسلامی حکومت کو کسی غیرمسلم معاہد قوم کے درمیان فیصلہ کرنے کے بارے میں ہے رہے ذمی لوگ سوا گر وہ اپنے مقدمات اسلامی عدلت میں لائیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کرنا ضروری ہوگا۔ (المنار ) یہی تفصیل امام شافعی (رح) نے منقول ہے پس اس تخیتر کا تعلق معاہد قوم سے ہے۔ (کبیر) مگر دوسرے علما کا خیال ہے کہ یہ تخیر منسوخ ہے جن میں حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز اور مام نخعی (رح) بھی شامل ہیں سخاس نے بھی ناسخ منسوخ میں یہی لکھا ہے اور حضرت عکرمہ (رض) سے بھی یہی مروی ہے کہ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ (مائدہ آیت 48) سے یہ آیت منسوخ ہے امام شافعی کا اصح قول بھی یہی ہے امام زہری (رح) فرماتے ہیں شروع سے یہ طریقہ چلاآیا ہے کہ باہمی حقوق اور احکام وراثت میں اہل کتاب کا فیصلہ ان کے دین کے مطابق کیا جائے ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کے خواہشمند ہوں تو پھراسی کے مطابق کردیا جائے گا اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ گو بعض جزئیات میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے تاہم ان کی اکثر یت نسخ کی قائل ہے (قرطبی) ف 4 یہاں ان کی جہالت اوعناد کا بیان ہے یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو مقدمہ آپ ﷺ کے پاس لارہے ہیں اس کا فیصلہ تو رات میں موجود ہے تاہم آپ ﷺ کے پاس اس لیے مقدمہ لاتے ہیں کہ شاید آپﷺ کا فیصلہ تورات کی بہ نسبت کچھ ہلکا ہو لیکن جب آپﷺ کا بھی وہی ہوتا ہے جو تورات کا ہوتا ہے تو وہ اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو وہ تورات پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آپ ﷺ پر اصل میں یہ اپنی اغراض کے بندے ہیں اور ان کا مقصد جیات ہی دینوی مصالح کا حاصل کرنا ہے۔ (کبیر )