إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سول پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، (٢٦) یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے (٢٧) یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔
ف 6 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت قبیلہ عکل اور عرینہ کے ان لوگو کے بارے میں میں نازل ہوئی ہے جن کاْقصہ حضرت انس (رض) نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے لیکن وہاں کی آب وہوا انہیں موافق نہ آئی وہ بیمار ہوگئے نبی ﷺ نے انہیں مدینہ سے باہر صدقہ اونٹوں میں رہنے کا حکم دیا کہ ان کا دودھ اور بیشاب پیئیں یہ لوگ وہاں چلے گئے تندرست ہونے کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے اور چر واہے (لیسار نوبی) کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے تعاقب میں سوار بھیجے جو انہیں پکڑ کر مدینہ منورہ لے آئے نبی ﷺ نے حکم دی ان کے ہاتھ پاوں کاٹ ڈالے جائیں اور انکی آنکھیں میں لو ہے کی گرم سلائیاں پھیری جائیں یہ 6 ھ کا واقعہ ہے مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے گرم سلائیاں پیھر نے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ (بخاری۔ مسلم) یہ سزا ان حربیوں کی ہے جو حکومت اسلامی کے باغی بن کر ملک کے اندر فساد پھیلا نے میں سرگرم رہتے ہیں حاکم وقت ان سزاوں میں سے جو سزا مناسب سمجھے ان کو سے سکتا ہے عام اس سے کہ وہ مشرک یا یہودی ہوں یا باغی مسلمان ہوں (قرطبی )