مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا (٢٥) اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں ہی کرتے رہے ہیں۔
ف 1 یعنی بھائی کے مر نے پر نہ کہ اپنے فعل پر کیونکہ اگر وہ اپنے فعل پر ندامت کا اظہار اور تو بہ کرتاتو گناہ معاف ہوجاتا اور دنیا میں جو قتل ہوئے ہیں اس کا گناہ اس پر نہ ہوتا (قرطبی) ف 2 یعنی ایسے شخص کو ناحق مار ڈالے جس نے نہ کوئی خون کیا ہو نہ ازراہ بغاوت کوئی فساد برپا کیا ہو۔ گناہ کی شدت بیان کرنے کے لیے جمیعا کہدیا ہے کہ گو یا سب کو قتل کرڈالا ورنہ اسے گناہ توایک کے قتل کا ہی ہوگا یا مطلب یہ ہے کہ جیسے سب کے قتل کرنے سے انسان جہنم میں جائے گا کسی ایک مسلمان کے ناحق قتل کردینے کی سزا بھی جہنم ہے یعنی یہ تشبیہ نفس عتاب کے لحاظ سے ہے کہ کمیت وکیفیت عذا کے اعتبا سے (قرطبی کبیر ) ف 3 یعنی اگر کسی ایک شخص کو ظالم کے ہاتھ سے بچا لے گا تو اسکا ثواب اتنا ہے گویاسب لوگوں کو بچایا (کذافی الموضح) ف 4 یعنی لوگوں پر ظلم اور دست درازی کرتے رہتے ہیں اور ناحق خون کرنے سے باز نہیں آتے اور اب پیغمبر اور جماعت حقہ کے قتل اور ایذار سانی کے درپے ہیں پھر ان کے مسرف ہونے ہونے میں کیا شبہ ہے ہو سکتا ہے جو کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔