إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاری اور صابی ہوں (کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں سے ہو) لیکن جو کوئی بھی خدا پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی
ف 6 اس آیت میں یہود کی عصبیت گردہی کی تردید مقصود ہے، وہ سمجھتے تھے کہ بس اللہ تعالیٰ کو خوشنودی اور نجات ہمارے لیے مخصوص ہے۔ یہا ں پر قرآن نے نجات کا مدار ایمان باللہ عمل صالح اور ایمان بالا خرہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان وہی معتبر ہوسکتا ہے جو انبیاء کے ذریعہ ہو۔ اور عمل صالح کی تعین بھی انبیاء ہی کرسکتے ہیں اور آخرت پر ایمان کے لیے بھی انبیاء کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن کا منشا یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے انبیاء کی ہدا یت کے تحت جو بھی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور اس وقت کے نبی کی شریعت کے مطابق اس نے عمل صالح بھی کیے ہوں گے اسے آخرت میں فلاح حاصل ہوجائے گی اس میں مسلمان یہود اور صابی سب برابر ہیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ان مذکورہ انبیاء کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی شرط نجات ہے کیونکہ آپ کی آمد سے شرئع سابقہ منسوخ ہوگئی ہیں الصابی یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی طرف دل سے مائل ہوجا نے کے ہیں۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ صانی ہر وہ شخص ہے جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار کرلے اس بنا پر کفار عرب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی کہہ کر پکار تے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آبائی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین کا اعلان کیا تھا۔ یہ لفظ حنیف کے با لمقابل ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل سب لوگ صابی دین کے حامل چلے آرہے تھے۔ یہ قوم حضرت شیث کے صحائف کے متبع تھی مگر تدریجا ان میں شرک سرایت کر گیا اور کواکب سبع کی پو جا کرنے لگے یہ اپنے عقیدہ کے مطابق جملہ حوادث کو کو اکب کی طرف منسوب کرتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بعشت کے وقت کلدانی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور بابل شہر ان کا مرکز تھا حضرت ابراہیم نے ہر قسم کو کو اکب اور بت پرستی سے برا ءت کا اظہار کر کے ان کے با لمقابل حنیفیت کی بنیاد رکھی۔ پھر تدریجا یہ لوگ نصاری میں شامل ہوگئے یہ لوگ اپنے مذہب کا نہا یت درجہ اخفا کرتے ہیں۔ شعیہ اسما عیلیہ نے کتمان مذہب انہی سے اخذ کیا ہے۔ اور ان کی دعوت کا منتہی بھی صابئین ہیں۔ ان کے اہل کتاب ہونے میں صحابہ وتابعین کے مختلف آثار ہیں۔ تفصیل کے لے دیکھئے جصاص الفہر ست الا بن ندیم الملل ولنحل )