يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر ایسے وقت دین کی وضاحت کرنے آئے ہیں جب پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی (جنت کی) خوشخبری دینے والا آیا، نہ کوئی (جہنم سے) ڈرانے والا۔ لو اب تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ اور اللہ ہر بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔
ف 10 یعنی ایک مدت سے رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ منقطع ہوچکا تھا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے انکی بعثت پر بھی تقریبا چھ سو سال گزر چکے تھے اور کوئی نبی نہیں آیا تھا پھر آخری نبی آنحضرت (ﷺ) مبعوث ہوئے اس آیت پر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول نہیں آیا تھا سو فرمایا کہ تم افسوس کرتے کہ ہم رسولوں کے وقت میں نہ ہوئے کہ تربیت ان کی پاتے، اب بعد مدت تم كو رسول کی صحبت میسر ہوئی غنیمت جانو اور اللہ تعالیٰ قادر ہے اگر تم قبول نه کر وگے اور خلق کھڑی کر دیگا تم سے بہتر۔ یہ جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ ان کی قوم نے جہاد کرنا پسند نہ کیا اللہ نے ان کو محروم کردیا۔ اور وں کے ہاتھ سے ملک شام فتح کرایا (موضح) ف 1 اس آیت میں آنحضرت (ﷺ) کی بعثت کا اساسی مقصد بیان فرمایا ہے یعنی عرصہ دراز سے کسی الوا العزم رسول کے نہ آنے کی وجہ سے شرائع میں تغیر وتبدل اور تحریف ہوچکی تھی اور حق و باطل میں امتیاز با قی نہ رہا تھا جو لوگوں کے لیے شرائع سے اعراض کرنے کا واضح عذر تھا پس آنحضرت (ﷺ) نے تبدل وتغیر اور تحریف سے ملت ابراہیمی کو پاک کر کے لوگوں کو شریعت حقہ سے روشناس کر یا تاکہ ان پر اتمام حجت ہوجائے اور عذر کی گنجائش باقی نہ رہے (کبیر قرطبی) ف 2 یعنی محمد (ﷺ)۔ لہذا اب تم اپنے کفر پر جمے رہنے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی عذر نہیں پیش کرسکتے (کبیر)