وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
یہود و نصاری کہتے ہیں کہ : ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (ان سے) کہو کہ پھر اللہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ (١٨) نہیں ! بلکہ تم انہی انسانوں کی طرح انسان ہوجو اس نے پیدا کیے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
ف 7 حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ) یہود کی ایک جماعت کو اسلام کی طرف دعوت دی اور ان کو عذاب الہیٰ سے ڈارایا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ تم ہمیں اللہ کے عذاب سے کیسے ڈراتے ہو ہم تو اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں، چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انجیل میں ہے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے نصاریٰٰ سے کہا: میں اپنے اور تمہارے باپ کے پاس جاتا ہوں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں گروہ اللہ تعالیٰ کے ابنا اور احبا ہونے کے مدعی تھے بعض نے یہاں مضاف محذوف مانا ہے ای نحن ابناء رسل اللہ واحباہ، حاصل یہ ہے کہ اہل کتاب اپنے آپ کو دوسروں سے فائق سمجھتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ ہمارے اسلاف کی وجہ سے ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ قرآن نے ان کی تردید کی (قرطبی، کبیر) ف 8 یعنی یہ قانون ہے کہ گناہ کریگا اسے سزا ملے گی اور جس کے عمل نیک ہوں گے اسے انعام ملے گا جس طرح دوسرے لوگوں پر نافذ ہوگا تم پر بھی نافذ ہوگا پھر تمہاری ایسی کونسی خصوصیت ہے جس کی بنا پر تم اپنے آپ کو اس کے بیٹے اور چہیتے کہتے ہو (ابن کثیر، قرطبی) ف 9 اس میں یہود یوں کے لیے تنبیہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے آخرکار تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے وہاں تمہاری جو بھی سزا ہوگی تمہیں مل کر رہے گی لہذ اتم اب بھی اپنی بداعمالی سے باز آجاؤ (ابن کثیر، شوکانی)