يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے (یہ) پیغبر آگئے ہیں جو کتاب (یعنی تورات اور انجیل) کی بہت سی ان باتوں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو تم چھپایا کرتے ہو، اور بہت سی باتوں سے درگزر کر جاتے ہیں (١٧) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی آئی ہے اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کردینے والی ہے۔
ف 11 یہود ونصاریٰ کے نقض عہد اور اعراض عن الحق کا ذکر کرنے کے بعد اب ان کو آنحضرت (ﷺ) پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے (کبیر)اس آیت میں آنحضرت (ﷺ)کی دو صفتیں بیان کی گئ ہیں۔ایک یہ کہ بہت سے احکام جو وہ چھپا یا کرتے تھے ان کو بیان کرتے ہیں جیسے رجم کی آیت سبت والوں کا قصہ جن کو مسخ کرکے بندر خنزیر بنادیا گیا تھا اور آنحضرت (ﷺ) کی صفات سے متعلق آیات الغرض یہود ونصاریٰ ان تمام باتوں کو چھپایا کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ چند یہو دی آنحضرت (ﷺ) کے پاس آئے اور رجم کے بارے میں سوال کرنے لگے آپ (ﷺ) نے ان کے سب سے بڑے عالم ابن صوریا کو قسم دلائی اور اس سے دریافت فرمایا کہ رجم کی آیت تورات میں ہے یا نہیں َ؟ بآلاخر اس کو قسم کی وجہ سے اعتراف کرنا پڑا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) ف 1 یعنی آنحضرت (ﷺ) کا دوسرا وصف یہ ہے کہ آپ (ﷺ) ان کی بہت سی چوریوں اور خیانتوں سے در گزر کرتے ہیں تاکہ وہ متاثر ہو کراسلام کے قریب آجائیں لیکن وہ ایسی باتیں ہیں جن کا دین میں اظہار ضروری نہیں ہے۔ (کبیر، قرطبی) ف 2 نور سے مراد شریعت اسلام ہے۔ اور’’ کتاب مبین‘‘ سے مراد قرآن پاک ہے یعنی یہ کتاب دین کے وہ تمام احکام بیان کرتی ہے جن کی لوگوں کو راہ ہدایت پانے کے لیے ضرورت ہے۔