يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دییے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ف 3 عمومی انعامات کے بیان کے بعد اب خصوصی انعامات کا ذکر ہے۔ (کبیر) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران میں (غزوہ ذات الرقاع میں) آنحضرت (ﷺ) نے ایک جنگ میں پڑا ؤفرمایا صحابہ کرام (رض) سائے کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر گئے آپ (ﷺ) بھی ایک درخت کے سائے میں لیٹ گئے اور تلوار درخت سے لٹکا دی۔ اتنے میں ایک بدو (غورث بن حارث) آیا اور تلوار سونت کر کہنے لگا اب آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی آپ (ﷺ) نے اسے اٹھا لیا اور اس بدو سے فرمایا اب بتاو تمہیں کون بچائے گا وہ کہنے لگا آپ بہترین پکڑنے والے نہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا :کیاتم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول (ﷺ) ہوں۔ وہ کہنے لگا میں عہد کر تاہوں کہ نہ آپ (ﷺ) سے خود جنگ کرو نگا اور نہ آپ (ﷺ) سے جنگ کرنے والوں کی مدد کرونگا اس پر آپ (ﷺ) نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیت کے سلسلہ میں نبی (ﷺ) بنو نضیر۔ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کے ہاں تشریف لے گئے انہوں نے آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو ایک دیوار کے سائے میں بٹھا یا اور آپس میں اسکیم بنائی کہ ان کے اوپر ایک چٹان یا چکی کا پاٹ گرادیا جائے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو خبردار کردیا اور آپ (ﷺ) وہاں سے اٹھ گئے (ابن کثیر، فتح البیان) ممکن ہے قرآن نے اس ایک آیت میں ان متعدد واقعات کی طرف اشارہ فرمادیا ہو اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ا یک آیت ایک وقعہ کے متعلق نازل ہوتی ہے پھر یاد دہانی کے لیے دوسرے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے (المنار۔ قرطبی )