يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارے جسم کو (غسل کے ذریعے) خوب اچھی طرح پاک کرو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے جسمانی ملاپ کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو (١١) اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس (مٹی) سے مسح کرلو۔ اللہ تم پر کوئی تنگی مسلط کرنا نہیں چاہتا، لیکن یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے، اور یہ کہ تم پر اپنی نعمت تمام کردے، تاکہ تم شکر گزار بنو۔
ف 4 اوپر کی آیات میں أَوۡفُواْ بِٱلۡعُقُودِۚکے تحت حلال اور حرام چیزیں بتائی گئی تھیں اب اس آیت میں اس کے تحت وضو اور تیمم کے احکام بیان فرمائے ہیں جو کہ عقود میں داخل ہیں اور سہولت پر مشتمل ہونے کے اعتبار سے اتمام نعمت بھی ہیں (کبیر، قرطبی) غزوہ مریسیع (5 ھ) میں حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا تھا ہا رکی تلاش میں صبح ہوگئی اور پانی موجود نہ تھا صحابه (رض) نے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی رخصت حاصل کی ہے کیونکہ وضو تو پہلے بھی معلوم تھا، اس لیے علما نے اس آیت کو آیت وضو کہنے کی بجائے آیت تیمم بھی کہا ہے (قرطبی) اور’’ بے وضو ہو ‘‘کی قید جمهور اہل علم نے لگا ئ ہے کیونکہ اگر انسان پہلے سے باوضو ہو تو دوبارہ وضو کرنا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ (کبیر ) اس آیت میں فرائض وضو کا بیان ہے۔ وضو میں سب سے پہلے نیت ضروری ہے کیونکہ حدیث میں ہے(إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ) کہ تمام اعمال عبادت کے لیے نیت ضروری ہے اس لیے امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس میں ایمان وضو، نماز،، زکوٰۃ، حج، روزہ۔ الغرض تمام اعمال داخل ہیں۔ پھر قرآن نے اعضا اربعہ کا وضو ذکر کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ باقی سب آداب وسنن ہیں (قرطبی) ف 5 ’’یعنی کہنیوں سمیت ‘‘حدیث میں ہے جب آنحضرت (ﷺ) وضو فرماتے تو اپنی کہنیوں پر بھی پانی ڈالتے (دارقطنی) مگر یہ حدیث ضعیف ہے (ابن کثیر) ف 6 گوعلمانے لکھا ہے کہ سارے سرکا مسح فرض نہیں ہے بلکہ سر کے کچھ حصہ کا مسح کرلیا جائے تو بھی کافی ہے مگر قرآن کے ظاہر اوراکثر احادیث کے روسے سارے سرکا مسح کرنا چاہیے ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے اپنے ناصیہ (سر کے اگلے حصہ )کا مسح کیا ۔مگر صحیح مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ آپ (ﷺ)نے باقی سرکا مسح عمامہ مبارک پر پورا کیا۔ لہذا اس حدیث سے بعض حصہ سر (خصوصاربع راس) کی تخصیص پر استدلال صحیح نہیں ہے( قرطبی) سرکے مسح میں کانوں کا مسح بھی شامل ہے مگر چونکہ یہ احادیث سے ثابت ہے اس لیے بعض سلف نے اس کو مستقل سنت قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم (قرطبی) سرکے ساتھ گردن کے مسح کا کوئی ثبوت نبی (ﷺ) یا صحابہ (رض) سے نہیں ملتا۔ ف 7 وَأَرۡجُلَكُمۡ میں لام کے زبر اور زیر کے ساتھ دو قرا تیں مروی ہیں۔ فتح لام والی قرات کی روسے تو ظاہر ہے کہ پاوں کا ٹخنوں تک دھونا ثابت ہوتا ہے۔ جمہور بلکہ جمیع علما سنت کا یہی مذ ہب ہے اور آنحضرت (ﷺ) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ (ﷺ) پاوں دھو یا کرتے تھے اور مسح نہ فرماتے تھے۔ صحابہ (رض) میں سے صرف حضرت علی (رض)، ابن عباس (رض) اور حضرت انس (رض) سے (کسرۃ لام والی قرات کی رو سے) وضو میں پاوں پر مسح کی روایات ملتی ہیں مگر ان سے بھی رجوع ثابت ہے۔ (فتح الباری) لیکن مسح کے معنی غسل خفیف بھی آتے ہیں لہذا ان کی مراد یہی معنی ہیں۔ (قرطبی) ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے کچھ صحابہ (رض) کو وضو کرتے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں کی خشکی چمک رہی ہے تو نبی (ﷺ) نے بلند آواز سے دو یاتین مرتبہ فرمایا کہ ان یڑیوں کے لئے آگ کا عذاب ہے یعنی ایڑیو ں کو اچھی طرح سے دھو و حتی ٰ کہ خشک نہ رہنے پائیں (بخاری مسلم) فقہا میں سے ابن جریر، طبری کے متعلق مشہور ہے کہ وہ پاوں کےغسل اور مسح دونوں میں تخییر کے قائل تھے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں دراصل طبری کایہ مذہب نہیں ہے بلکہ مسح بمعنی’’ دلک ‘‘یعنی پاوں کو مل کر دھونے کے معنی میں ہے یعنی امام طبری صرف دھونے کے قائل نہیں تھے بلکہ مل کر دھونے کو ضروری قرار دیتے تھے (ابن کثیر) مسئلہ: وضو میں ترتیب بھی ضروری ہے جیسا کہفَٱغۡسِلُواْکی فا سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ کا پہلے دھونا ضروری ہے لہذا باقی اعضا میں بھی ترتیب ضروری ہوگی ورنہ خرق اجماع لازم آئے گا اور پھر آنحضرت (ﷺ) نے ہمیشہ وضو مرتب کیا ہے۔ ف 8 تیمم کے لیے دیکھئے سورت نسا آیت 43)