سورة المآئدہ - آیت 3

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم پر مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور حرام کردیا گیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جسے چوٹ مار کر ہلاک کیا گیا ہو، اور جو اوپر سے گر کر مرا ہو۔ اور جسے کسی جانور نے سینگ مار کر ہلاک کیا ہو، اور جسے کسی درندے نے کھالیا ہو، الا یہ کہ تم (اس کے مرنے سے پہلے) اس کو ذبح کرچکے ہو، اور وہ (جانور بھی حرام ہے) جسے بتوں کی قربان گاہ پر ذبح کیا گیا ہو۔ اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے) کہ تم جوے کے تیروں سے (گوشت وغیرہ) تقسیم کرو۔ (٦) یہ ساری باتیں سخت گناہ کی ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے مغلوب ہونے) سے ناامید ہوگئے ہیں، لہذا ان سے مت ڈرو، اور میرا ڈر دل میں رکھو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا (٧) (لہذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو) ہاں جو شخص شدید بھوک کے عالم میں بالکل مجبور ہوجائے (اور اس مجبوری میں ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھا لے) بشرطیکہ گناہ کی رغبت کی بنا پر ایسا نہ کیا ہو، تو بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ غیر خدا کے نام پر جانور ذبح ہو یا غیر خدا کی تعظیم میں وہ مردار ہے (موضح) مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت 173) ف 3 مثلا کسی ایسے آلہ سے قتل کردیا جائے جو تیز نہ ہو اور نہ اسے شرعی طریقہ ہی سے ذبح کیا گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں جانور کو لاٹھی سے مارتے جب وہ مر جاتے تو اس کا گوشت کھالیتے اسی کو قرآن نے المو قوذۃ فرماکر قرار دیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 یہ مستثنی ٰ متصل ہے یعنی جو جانور مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا شکار ہو مگر ابھی اس میں جان باقی ہو اور تم اسے شرعی قاعدے سے ذبح کرلو تو وہ حرام نہیں رہتا اسے کھان جائز ہے بض نے اسے مستثنی ٰ منقطع مانا ہے یعنی مذکورہ چیزیں تم پر حرام ہیں لیکن جو تم زبح کرو وہ حرام نہیں ہے (قرطبی) زکاۃ شرعی ہے کہ بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر تیز دھار ولی چیز سے حقل کی رگوں کو غلصمہ کے نیچے سے کاٹ کر خون بہا دیا جائے حدیث میں ہے انما الذکوٰۃ فی الحلق کہ ذبح وہ ہے جو حقل میں ہو پھر بحالت اضطراری جس چیز سے بھی جسم کے کسی حصہ سے خون بہا دیا جائے اس ذبیحہ کا کھانا بھی جائز ہے۔ (قرطبی) ف 5 نصب (تھانوں یا استھانوں) سے مراد وہ پتھر ہیں جن کی مشرکن مکہ تعظیم وپرستش کرتے تھے اور ان پر اپنے جا نور ذبح کرتے تھے مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں کی تعظیم کے لیے جو جانور زبح کیا وہ حرام ہوگا ورنہ محض ان پتھروں پر ذبح کرنے سے جانور حرام نہیں ہوجاتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیٰ بمعنی لام ہو یہ بھی دراصل ما اھل لغیر اللہ میں داخل ہے مگر ان پتھروں پر بکثرت ذبح کیے جانے کے سبب اس کو الگ ذکر کردیا گیا ہے (کبیر، قرطبی) بعض مفسرین نے الاذلام (پانسوں سے مراد تقسیم کے تیر لیے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں جا نور کا گوشت بانٹنے میں استعمال ہوتے تھے اور وہ جوئے کی ایک صورت تھی جسے ہمارے زمانہ میں لاٹری کہا جاتا ہے، چنانچہ ترجمہ اس کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن اکثر مفسرین نے ان سے مراد وہ تیر لیے ہیں جن سے مشرکین مکہ یہ معلوم کرنے کی کو شش کرتے تھے کہ پیش آمدہ سفر جنگ یا کسی معاملہ میں ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے یہ تیر قریش کے سب سے بڑے بت ہبل کے پاس رکھے رہتے تھے ان میں سے کسی پر امرنی ربی (میرے رب نے حکم دیا) لکھا ہوتا تھا کسی پر نہانی ربی (میرے رب نے مجھے منع کیا) اور کسی پر کوئی تحریر نہ ہوتی تھی۔ عرب لوگ کسی پیش آمدہ معاملہ میں وہ تیر گھماتے اور جو تیر نکل آتا اس کے مطابقا عمل کرتے۔ نرد اور سطرنج بھی اسی میں داخل ہیں اور نجومیوں کا حساب لگا کر قسمت بتانا بھی اسی کے تحت آجاتا ہے۔ (قرطبی) ف 7 یعنی اب تمہارے طاقت اس قدر مستحکم ہوگئی ہے کہ تمہارے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس چیزسے قطعی مایوس ہوگئے ہیں کہ تمہارے دین کو نیچا دکھا سکیں آج سے مراد حجتہ الوداع (10 ھ میں عرفہ کا دن ہے جس میں آیت نازل ہوئی۔ ّقرطبی) ف 8 دین کو مکمل کردینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان فرائض سنن حدود اور احکام بیان کردیئے گئے اور کفر وشرک کا خاتمہ کرکے اس نعمت کو مکمل کردیا گیا نبی ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد 18 دن زندہ رہے بعد وفات پاگئے۔ علمانے لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آیت ربا (سود کی حرمت) اور آیت کلالہ نازل ہوئی ہیں پس دین کے مکمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین کا بڑا حصہ مکمل کردیا گیا ہے (ابن کثیر، قرطبی) ف 9 یعنی ایسا مجبور اور لاچار آدمی اگر مذکورہ بالا حرام چیزوں میں سے کچھ کھا لے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کچھ مواخذ ہ نہ ہوگا بشر طیکہ خواہ مخواہ حرام کھانے کا شوق نہ ہو اور جان بچانے کی حد سے زیادہ نہ کھائے (دیکھئے سورت بقرہ آیت 173)