لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا
مسیح کو ہرگز اس بات میں عار نہیں کہ وہ خدا کا بندہ سمجھا جائے اور نہ خدا کے مقرب فرشتوں کو اس سے ننگ و عار ہے۔ جو کوئی خدا کی بندگی میں ننگ و عار سمجھے اور گھمنڈ کرے تو ( وہ گھمنڈ کرکے جائے گا کہاں؟) وہ وقت دور نہیں کہ خدا سب کو ( قیامت کے دن) اپنے حضور جمع کرے گا
ف 3 اس میں عیسائیوں ارمشرکین دونوں کے غلط عقیدہ کی تردید ہے کیونکہ عیسائی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹاں کہتے تھے، اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ دونوں خدا کی بندگی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کا بندہ ہونے پر کچھ بھی شرم محسوس نہیں کرتے یہی حال ہمارے نبی ﷺ کا تھا جب کوئی شخص آپ ﷺ کا بندہ کہتا تو آپ کو بے انتہا خوشی ہوتی کیونکہ اس مالک الملک اور شہنشاہ مطلق کا بندہ ہونا انتہائی عزت وشرف کا مقام ہے نہ کہ کسی ذلت و رسوائی کا امام ابن القیم (رح) نے اپنی کتاب انوار القلوب میں لکھا ہے کہ آدمی کے لیے بندگی کے مقام سے زیادہ عزت کا کوئی مقام نہیں ہے اکر م الخلق محمد ﷺ کو تین مقامات پر جو کہ نہایت عزت کے مقامات ہیں لفظ عبد (بندہ) کہہ کر ذکر گیا ہے۔ (از فوائد سلفیہ )