وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
اور (دیکھو) اہل کتاب میں (یعنی یہودیوں میں سے جنہوں نے میسح سے انکار کیا) کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے (حقیقت حال پر مطلع نہ ہوجائے اور) اس پر (یعنی مسیح کی صداقت پر) یقین نہ لے آئے۔ ایسا ہونا ضروری ہے (کیونکہ مرنے کے وقت غفلت و شرارت کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور حقیقت نمودار ہوتی ہے) اور قیامت کے دن وہ (اللہ کے حضور) ان پر شہادت دینے والا ہوگا
ف 12 یعنی یہودی کہ حاضر شوندنزول عیسیٰ ( علیہ السلام) را البتہ ایمان آرند واللہ اعلم (فتح الرحمن اور یہودی ونصاریٰ سب اب پر ایمان لاوینگے کہ یہ مرے نہ تھے۔ (مو ضح) یعنی جب حضرت مسیح ( علیہ السلام) قیامت سے کچھ پہلے نازل ہو نگے تو ان کی طبعی وفات سے قبل جو اہل کتاب اس وقت موجود ہو نگے سب ان کے رسول اللہ ہونے اور آسمان پر زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لاچکے ہونگے فاقو وان شئتم : وان من اھل الکتٰب الا یمئو منن بہ قبلموتہ یعنی اگر تم بطور استثنا چاہو تو یہ آیت پڑھو مطلب یہ یہ کہ آحادیث کے علاوہ اگر اس پیش گوئی کو قرآن کی روشنی میں دیکھنا چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ (ابن کثیر شوکانی) محققین کے نزدیک حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے قرب قیامت نزول کی روایت متواتر ہیں۔ (دیکھئے ججج الکرامتہ ص 39۔434 ) اور امام شوکانی نے التو ضح بما تو اتر من احادیث نزول المسیح کے نام کا ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں پچاس سے زیادہ احادیث لائے ہیں حضرات النواب مذکورہ کتاب حجج الکرمتہ میں تمام احادیث لے آئے ہیں۔ بنابریں یہ مسئلہ اسلام کے ضرور عقائد سے شمار کیا گیا ہے چنانچہ ایک جنبلی علام علامہ محمد بن احمد سفارینی (متوفی 1188 ھ) علامت قیامت کے سلسلسہ میں لکھتے ہیں ونزولہ ثابت بالکتاب والسنتہ والا جماع پھر دلیل میں آیت زیر تفسیر حدیث ابو ہریرہ (رض) بیان کر کے لکھتے ہیں والما الاع فقد اجمعت الر متہ نزولہ ولا یخالف فیہاحد من اھل الشریعتہ شرح عقیدہ سفار دینی ج 2 ص 79۔90) یعنی یہ نزول امت محمدیہ ﷺ کے اتفاق سے قطعی ثابت ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس کا مخالف نہیں۔ ف 13 یعنی اس وقت یہود کے خلاف گواہی دینگے کہ انہوں نے میری تکزیب کی اور نصاریٰ کے خلاف کہ انہوں نے مجھے اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ دیکھئے سورت مائدہ آیت 120)