أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
اے پیغمبر) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اس لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا جو ہاتھیوں کا ایک غول لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا (١)۔
ف 10 یہ واقعہ اس سال کا ہے جس سال نبی ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ نے اگرچہ اسے نہیں دیکھا لیکن وہ اتنا مشہور تھا کہ قریش کا بچہ بچہ اس سے واقف تھا اور اس کا ہمیشہ تذکرہ رہتا تھا، اس لئے اسے دیکھنے سے تعبیر فرمایا۔ ف 11 اصحاب فیل کا واقعہ جس کا اس سورۃ میں ذکر کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے میں پر ” ابرہہ“ نامی ایک گورنر مقرر تھا جو سخت متعصب عیسائی تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ سارے عرب میں کعبہ کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے اور لوگ ہر طرف سے اس کا حج اور عمرہ کرنے آتے ہیں تو اس نے اپنے ہاں ’ دصنعا‘ میں ایک گھر بنایا اور لوگوں کو ترغیب دی کہ کعبہ کے بجائے اس کا حج وعمرہ کریں، لیکن عربوں کو یہ چیز کیسے گوارا ہو سکتی تھی۔ کسی نے غصہ میں آ کر ابرہہ کے بنائے ہوئے اس گھر میں پائخانہ کردیا۔ ابرہہ کو غصہ آیا اور وہ ایک بہت بڑا لشکر جس میں آگے آگے ہاتھی تھے، لے کر روانہ ہوا تاکہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ قریش اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف نکل گئے ابرہہ جب وادی محسر (جو مکہ معظمہ کے قریب ہے) میں پہنچا تو سمندر کی طرف سے سبز اور زرد رنگ کے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ آتے نظر آئے۔ ہر پرندے کی چونچ اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں۔ انہوں نے لشکر کے سر پر پہنچ کر وہ کنکریاں پھینکنا شروع کردیں۔ جس فوجی کے کوئی کنکری لگتی وہ وہیں ڈھیر ہوجاتا کیونکہ کنکری اس کے یک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل جاتی تھی۔ اکثر فوجی وہیں مارے گئے اور بھاگے وہ دوسری بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر مرے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور قریش پر اس کا احسان جتایا۔ اس واقعہ کی تفصیل سیرت کی ہر کتاب میں مل سکتی ہے۔