وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو، لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کرسکو (کیونکہ دل کا قدرتی کھنچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ کسی طرف زیادہ کھنچے گا کسی طرف کم) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک پڑو، اور دوسری کو (اس طرح) چھور بیٹھو گویا "معلقہ" ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظام کرے۔ نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عورت کی طرح ہو۔ بیچ میں پڑی لٹک رہی ہے) اور (دیکھو) اگر تم (عورتوں کے معاملہ میں) درستی پر رہو، اور (بے انصافی سے) بچو، تو اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے۔
ف 6 یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر وہ پسند یده فعل نہیں ہے جیساکہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے( أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ الطَّلَاقُ )کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز طلاق ہے۔ ( ابو داود) ف 7 یعنی انسان کا بخل اور لالچ تو فطری امر ہے۔ مرد کا شح (بخل) یہ ہے کہ عورت سے استمتاع کرے مگر اس کے پورے حقوق ادا نہ کرے اور عورت کا شح یہ ہے کہ مہر اور نان ونفقہ تو پورا وصول کرے مگر حقوق ادا کرنے میں کوتاہی برتے۔ ف 8 یعنی اس لالچ کے جذبہ کے باوجود اگر میاں بیوی ایک دو سرے سے احسان اور فیاضی کاسلوک کریں تو اس کا اجر اللہ کے ہاں ضرور پائینگے ف 9 یعنی دویادو سے زیادہ بیویوں کے درمیان ہر لحاظ سے پوری پوری مساوات برتنا انسانی طاقت سے باہر ہے کیونکہ عورتیں طبائع اخلاق اور شکل وصورت میں ایک دوسرے سے متفادت ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں اگر مرد کا میلان ایک کی طرف زیادہ اور دوسری کی طرف کم ہو تو ایک فطری امر ہے جس پر وہ چاہے بھی تو قابو نہیں پاسکتا۔ لہذا قرآن نے اس بات پرزور دیا ہے کہ تعدد ازواج کی صورت میں ایک کی طرف اس طرح جھک جانا کہ دوسری معلق ہو کر رہ جائے گو یا اس کا کوئی شوہر نہیں ہے یہ تو حرام ہے۔ ظاہری حقوق میں عورتوں سے مساوی سلوک کیا جائے دل کے میلان پر گرفت نہیں ہے اس لیے آنحضرت (ﷺ) فرمایا کرتے تھے (اللَّهُمَّ هَذِا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ، فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا أَمْلِكُ) اے اللہ یہ میری اپنی بیویوں کے درمیان اس چیز کی تقسیم ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں یعنی کھانا پینا کپڑا۔ سونا بیٹھنا وغیرہ) لہذا تو مجھے اس چیز پر ملامت نہ فرماجس کا میں اختیار نہیں رکھتا یعنی دلی میلان اور محبت۔ (ابوداو۔ ترمذی) ف 10 یعنی اس فرق کو جو تمہاری دلی محبت اور رغبت میں پایا جائے گا۔