وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
اور جس شخص پر الہدی (یعنی ہدایت کی حقیقی راہ) کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول سے مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف کو لے جائیں گے جس (طرف) کو (جانا) اس نے پسند کرلیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے۔ اور (جس کے پہنچنے کی جگہ دوزخ ہوئی تو) یہ پہنچنے کی کیا ہی بری جگہ ہے
ف 4 یعنی جو شخص یا گر وہ شریعت کے خلاف راستہ اختیار کرے اور حق معلوم ہوجانے کے باوجود مسلمانوں کی سیدھی اور صاف روش ہے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے اسی ٹیڑھی راہ پر لگا دیتے ہیں جو اس کو جہنم میں لے جا کر ڈال دیتی ہے۔ مومنوں کی راہ دراصل تو کتاب و سنت کی راہ ہے اور کسی اجماعی مسئلے کی مخالفت کرنا بھی غیر مومنوں کی راہ پر چلنا ہے۔ (قرطبی) امت محمد یہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ اجتماعی طور پر غلطی اور خطا سے محفوظ رہی ہے اور رہے گی ،۔ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا كه ساری امت صدیوں ایک غلط راہ پر چلتی رہے۔ اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں حتی ٰ کہ بعض علما ان کے تواتر کے قائل ہیں امام شافعی (رح) نے اجماع کے حجت ہونے کا اس آیت سے استنباط کیا ہے اور یہ استنبا ط بہت قوی اور عمدہ ہے ( ابن کثیر) شیخ الا سلام ابن تیمیہ (رح) نے اپنی کتاب معارج الو صول میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور امام شافعی (رح) کے استدلال کی پر زور تائید کی ہے (م، خ) ف5 مذکورہ بالا واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آجانے کے بعد جب نبی (ﷺ) نے طعمہ پرچوری کی حد جاری کرنے کا حکم دیا تو وہ مرتد ہوگیا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ کے مشرکین سےجاملا۔، اس آیت میں اس کے اسی طرزعمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ویسے یہ آیت عام ہے اور اس میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو نبی (ﷺ) کی سنت اور سلف صالحین کے مسلک سے منہ موڑ کر دوسروں کی پیروی کرتے ہیں اور آئے دن نئی نئی بدعات ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ یہ بتا نے کی ضرورت نہیں ہے کہ تقلید کی ایجاد بھی بعد کی صدیوں میں ہوئی سلف صالح کے دور میں اس کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ کتاب وسنت کی کسی دلیل سے اس کی گنجائش نکلتی ہے۔