إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر الکتاب سچائی کے ساتھ نازل کردی ہے تاکہ جیسا کہ کچھ خدا نے بتلا دیا ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ اور خیانت کرنے والوں کی طرف داری میں نہ جھگڑو (یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کی وکالت میں فریق ثانی سے جھگڑو)
ف 6 یعنی شریعت کے قواعد کے مطابق فیصلہ کرو جیسے اللہ نے تجھ کو دکھلا یا یعنی وحی بھیج کر یا کسی اور طریقه سے آپ (ﷺ) کو سمجھایا حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں یہ أَرَاكَ ٱللَّه آنحضرت(ﷺ) کے ساتھ خاص تھا کہ آپ (ﷺ) کی رائے اللہ تعالیٰ کے سمجھانے سے ٹھیک ہوتی تھی اس لیے آپ (ﷺ) کا فیصلہ واجب الا تباع ہے، آنحضرت (ﷺ) کے بعد یہ منصب کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اور امام یا مجتہد کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی لہذا اس پر عمل کرنا بھی ضروری نہیں ہے (کذافی الوحیدی) ف 7 ان آیات کی شان نزول کے تحت عطا نے لکھا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشر بن ابیرق تھا۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرالی اور اسے ایک یہودی کے گھر میں پھینک دیا۔ یہودی نبی (ﷺ) کے پاس پہنچا کہ بنی ابریق( طعمہ اور اس کے بھائیوں) نے یہ زرہ چوری کر کے میرے گھر میں پھینک دی۔ جب بنی ظفر کے لوگوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے ایکا کرلیا اور پھر شور مچا تے نبی (ﷺ) کے پاس پہنچے کہ یہود دی جھوٹا ہے۔ زرہ اسی نے چرائی ہے طعمہ اور اس کے بھائی اس الزام سے بری ہیں، قریب تھا کہ آنحضرت (ﷺ) اس یہو دی کے خلاف فیصلہ صادر فرمادیتے اور بنی ابیرق پر الزام رکھنے پر اسے سرزنش بھی کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن جریر)آیت میں ’’دغابازوں ‘‘سے مراد طعمہ اور اس کے بھائی ہیں، یعنی آپ(ﷺ) ان کی حمایت نہ کریں۔ اصل میں یہی مجرم ہیں۔ معلوم ہوا کہ متہم شخص کی حمایت جائز نہیں ہے اور کافر ذمی کا مال بھی مسلما ن کے مال کی طرح محفوظ ہے۔ (قرطبی)