وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور اگر (جنگ کے لیے) تم سفر میں نکلو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر نماز (کی تعداد) میں سے کچھ کم کردو۔ بلاشبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (وہ جب موقع پائیں گے تم پر حملہ کردیں گے)
ف 4 مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کی بجائے دو رکعت پڑھنے کا نام قصر ہے’’ تم پر کچھ گناہ نہیں‘‘ کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں۔ اس کی صرف اجازت ہے یہی اکثر علماۓ سلف کا مسلک ہے مگر آنحضرت (ﷺ) کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی احمد بن جنبل اور اکثر محدثین کے نزدیک قصر افضل ہے، بعض علما نے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث(فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ ( کہ نماز دورکعت فرض ہوئی) کے پیش نظر قصر کو واجب مانا ہے مگر حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث کے متن میں اضطراب ہے اور حضرت عائشہ (رض) کا عمل اور فتویٰ اس کے خلاف ہے اور پھر حضرت ابن عباس (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) قصر کو سنت کہتے ہیں فاین المذھب عن قولھا۔( قرطبی) سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے جسے عر ف میں سفر کہا جاتا ہو اب رہی میلوں کی یا دونوں کی مقدار کی تعین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی (ﷺ) کی کسی صریح حدیث میں بنا بریں جن ائمہ اور علمانے کسی مقدار کی تعین کی ہے انہوں نے عموما نبی (ﷺ) کے سفروں کو دیکھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے کی ہے تاہم سب سے بہتر دلیل تعیین مقدار سفر میں صحیح مسلم میں حدیث انس (رض) ہے جس کی روسے نو کوس تک کا سفر ہونا چاہئے نیز کسی صحیح حدیث میں نبی (ﷺ) سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ (ﷺ) نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنت ادا کی ہو ہاں رات کے وقت وتر اور صبح کی سنتیں آپ (ﷺ) ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زادالمعاد) صحابہ (رض) میں سے ابوبکر (رض)، عمر (رض) اور ابن عمر (رض) کا اسی پر عمل تھا (بخاری) البتہ بعض صحابہ (رض) سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں سنتیں اور نفل پڑھا کرتے تھے اس لیے یہ جائز ہیں۔ مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کریگا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ابو القاسم (ﷺ) کی سنت ہے (مسند احمد)