إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
جو لوگ (دشمنوں کے ساتھ رہ کر) اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہے ہیں، ان کیر وح قبض کرنے کے بعد فرشتے ان سے پوچھیں گے "تم کس حال میں تھے؟ "(یعنی دین کے اعتبار سے تمہارا حال کیا تھا؟) وہ جواب میں کہیں گے "ہم کیا کرتے؟ ہم ملک میں دبے ہوئے اور بے بس تھے" (یعنی بے بسی کی وجہ سے اپنے اعتقاد و عمل کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتے تھے) اس پر فرشتے کہیں گے (اگر تم اپنے ملک میں بے بس ہو رہے تھے تو) کیا خدا کی زمین سیع نہ تھی کہ کسی دوسری جگہ ہجرت کرکے چلے جاتے غرض کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہوا، اور اور جس کا ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری جگہ ہے
ف 4 ان لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ معظمہ اور دوسرے مقامات پر اسلام لا چکے تھے لیکن مجبوری کے بغیر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کر رہے تھے اور دارالا سلام کی زندگی چھوڑ کر دارالکفر میں رہنے پر قانع تھے۔ روایات میں ہے کہ اہل مکہ کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی اور ان لوگوں نے آنحضرت(ﷺ) کے سامنے اظہار ایمان بھی کیا مگر جب آنحضرت(ﷺ) نے ہجرت کی تو انہوں نے مکہ میں اپنی قوم کے پاس رہنا پسند کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) ف 5 یعنی فرشتے تقریع اور توبیخ کے انداز میں ان سے پو چھتے ہیں کہ تم مسلمان تھے یا کافر یا دارالکفر میں پڑے کیا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بلاعذر ترک ہجرت کی بنا پر ظالم کی موت مرے ہیں۔ (قرطبی)