سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
ان کے علاوہ کچھ لوگ تمہیں ایسے بھی ملیں گے جو (لڑائی کے خواہشمند نہیں ہیں) تمہاری طرف سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، اور اپنی قوم کی طرف سے بھی۔ لیکن جب کبھی فتنہ و فساد کی طرف لوٹا دیے جائیں تو اوندھے منہ اس میں گر پڑیں (اور اپنی جگہ قائم نہ رہ سکیں) سو اگر ایسے لوگ کنارہ کش نہ ہوجائیں اور تمہاری طرف پیام صلح نہ بھیجیں اور نہ لڑائی سے ہاتھ روکیں تو انہیں بھی گرفتار کرو، اور جہاں کہیں پاؤ قتل کرو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے برخلاف ہم نے تمہیں کھلی حجت (جنگ) دے دی ہے
ف 6 یعنی ایسے منافقین جو دل سے مشرکوں کے ساتھ ہیں لیکن محض مطلب براری ارموقع شناسی کی خاطر تمہیں اپنے مسلمان ہونے یا غیر جانبدار رہنے کا یقین دلاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ تمہارے خلاف سازش کرتے اور تمہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جا نے دیتے۔ ان سے اسد وغطفان کے بعض قبائل مراد ہیں جو آنحضرت (ﷺ) کے پاس مدینہ آتے اور ریاکاری سے مسلمان ہوجاتے پھر مکہ واپس جاتے تو بت پرستی شروع کردیتے تو فرمایا کہ ایسے لوگ اگر کنارہ کش نہ رہیں تو ان سے لڑو۔ ( شوکانی۔ کبیر ) ف1یہاں سُلْطَانًا مُبِينًاسے یا تو مراد یہ ہے کہ ان سے لڑنے اور ان کو قتل کرنے کی تمہارے پاس دلیل موجود ہے وہ یہ کہ بد عہد ہیں کھلے دشمن ہیں ۔موقع ملے تو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے یا یہ کہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کھلی اجازت ہے (کبیر )