مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو انسان دوسرے انسان کے ساتھ نیکی کے کام میں ملتا اور مددگار ہوتا ہے تو اسے اس کام کے (اجر و نتائج) میں حصہ ملے گا اور جو کوئی برائی میں دوسرے کے ساتھ ملتا اور مددگار ہوتا ہے تو اس کے لیے اس برائی میں حصہ ہوگا اور اللہ ہر چیز کا محافظ اور نگران ہے (وہ ہر حالت اور ہر عمل کے مطابق بدلہ دیتا ہے)
ف 7 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عسیٰ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پس آیت میں وعدہ کیا جارہا ہے کہ عنقریب کفا رکا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔۔ ف 8 اوپر کی آیت میں آنحضرت کو حکم دی کہ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں جو اعمال حسنہ میں میں سے یہاں تبایا کہ آپ ﷺ کو اس پر اجر عظیم ملے گا پس یہاں سفاعت حسنہ سے ترغیب جہاد مراد ہے اور شفاعت سیئہ سے اس کا کار خیر سے رکنا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اشفعر اتوجروا کہ نیک سفارش کرواجر پاو گے۔ (رازی۔ ابن کثیر )